صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
18. بَابُ: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ} :
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4053
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ , أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا شَيْبَانُ , عَنْ فِرَاسٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا , وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ , فَلَمَّا حَضَرَ جِزَازُ النَّخْلِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي قَدِ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ , فَقَالَ:" اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ" , فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ , فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّهُمْ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ , فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" ادْعُ لِي أَصْحَابَكَ" , فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ عَنْ وَالِدِي أَمَانَتَهُ , وَأَنَا أَرْضَى أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَلَا أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ , فَسَلَّمَ اللَّهُ الْبَيَادِرَ كُلَّهَا وَحَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّهَا لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً.
ہم سے احمد بن ابی شریح نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن موسیٰ نے خبر دی، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے فراس نے، ان سے شعبی نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اور قرض چھوڑ گئے تھے اور چھ لڑکیاں بھی۔ جب درختوں سے کھجور اتارے جانے کا وقت قریب آیا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، میرے والد صاحب احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (اور کچھ نرمی برتیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجور کا الگ الگ ڈھیر لگا لو۔ میں نے حکم کے مطابق عمل کیا اور پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھا تو جیسے اس وقت مجھ پر اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ (کیونکہ وہ یہودی تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کا یہ طرز عمل دیکھا تو آپ پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین مرتبہ گھومے۔ اس کے بعد اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر انہیں ناپ کے دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی طرف سے ان کی ساری امانت ادا کر دی۔ میں اس پر خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کی امانت ادا کرا دے اور میں اپنی بہنوں کے لیے ایک کھجور بھی نہ لے جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام دوسرے ڈھیر بچا دیئے بلکہ اس ڈھیر کو بھی جب دیکھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے اس میں سے ایک کھجور کا دانہ بھی کم نہیں ہوا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2884   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4053  
4053. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے اوپر بہت سا قرض اور چھ بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجوریں اتارنے کا موسم آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے باپ اُحد میں شہید ہو گئے ہیں اور بہت سا قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں اور کچھ رعایت کریں۔ آپ نے فرمایا: تم جا کر کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں لگاؤ۔ میں نے آپ کے حکم کے مطابق عمل کیا، پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس وقت میرے خلاف اور زیادہ مشتعل ہو گئے۔ آپ نے جب ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ ﷺ مسلسل انہیں ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4053]
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ رسول کریم ﷺ کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔
قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کی جابر ؓ پر نظر عنایت ہے۔
اگر جابر ؓ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت ﷺ خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے۔
اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4053   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4053  
4053. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے اوپر بہت سا قرض اور چھ بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجوریں اتارنے کا موسم آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے باپ اُحد میں شہید ہو گئے ہیں اور بہت سا قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں اور کچھ رعایت کریں۔ آپ نے فرمایا: تم جا کر کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں لگاؤ۔ میں نے آپ کے حکم کے مطابق عمل کیا، پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس وقت میرے خلاف اور زیادہ مشتعل ہو گئے۔ آپ نے جب ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ ﷺ مسلسل انہیں ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4053]
حدیث حاشیہ:

حضرت جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کو اس خیال سے قرض خواہوں کے پاس لائے تھے کہ وہ آپ کا لحاظ کریں گے اور کچھ قرض معاف کردیں گے لیکن اس کا نتیجہ برعکس نکلا۔
چونکہ وہ یہودی تھے اور دنیا داری کے رگ وریشے میں رچ بس چکی تھی۔
وہ یہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ کی جابر ؓ ہر نظر عنایت ہے اگر جابر ؓ کے والد گرامی کا مال کافی نہ ہوا تو باقی قرض خود رسول اللہ ﷺ اپنے پاس سے ادا کردیں گے، اس لیے انھوں نے ادائیگی کے لیے تقاضا مزید سخت کردیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور مال میں اس قدر برکت پڑگئی کہ قرض کی ادائیگی کے بعد کافی کھجوریں بچ گئیں۔

اس حدیث میں غزوہ احد کے موقع پر حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کی شہادت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
ایک حدیث میں حضرت جابر کی فضیلت بایں طور واقع ہوئی ہے:
حضرت جابر کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ ملے تو میں انتہائی افسردہ تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے وجہ پوچھی تو میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہﷺ !میرے والد گرامی غزوہ احد میں شہید ہو گئے ہیں اور اپنے پیچھے اہل وعیال اور کافی قرض چھوڑگئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں تجھے بتاؤں کہ پروردگارنے تیرے والد کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر سے براہ راست گفتگو نہیں فرمائی۔
تیرے والد کو زندہ کیا اور اس سے بلا واسطہ کلام کیا اور فرمایا:
میرے بندے!کسی خواہش کا اظہار کرو۔
تاکہ میں اسے پورا کروں۔
انھوں نے عرض کی۔
اے اللہ! مجھے زندہ کر کے دنیا میں بھیج دے تاکہ تیرے راستے میں دوبارہ شہید ہو جاؤں۔
اللہ نے فرمایا:
یہ تو میرے ضابطے اور قانون کے خلاف ہے۔
یہ آیت کریمہ ان کے متعلق نازل ہوئی:
جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ گمان نہ کریں۔
(آل عمران: 169/3۔
و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3010)


پہلی حدیث میں حضرت جابر ؓنے بہنوں کا ذکر کیا تھا جبکہ اس حدیث میں چھ کا بیان ہے؟ دراصل حضرت جابر ؓکی کل نو بہنیں تھیں۔
ان میں سے تین شادی شدہ تھیں جو اپنے خاوندوں کے پاس رہتی تھیں اور چھ کنواریاں تھیں جو حضرت جابر کے پاس تھیں۔
(فتح الباري: 447/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4053