صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
18. بَابُ: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ} :
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4065
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا كَانَ يَوْمَ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ، فَصَرَخَ إِبْلِيسُ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ. فَرَجَعَتْ أُولاَهُمْ فَاجْتَلَدَتْ هِيَ وَأُخْرَاهُمْ فَبَصُرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ الْيَمَانِ فَقَالَ أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِي أَبِي. قَالَ قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ. قَالَ عُرْوَةُ فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ. بَصُرْتُ عَلِمْتُ، مِنَ الْبَصِيرَةِ فِي الأَمْرِ، وَأَبْصَرْتُ مِنْ بَصَرِ الْعَيْنِ وَيُقَالُ بَصُرْتُ وَأَبْصَرْتُ وَاحِدٌ.
مجھ سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ شروع جنگ احد میں پہلے مشرکین شکست کھا گئے تھے لیکن ابلیس، اللہ کی اس پر لعنت ہو، دھوکا دینے کے لیے پکارنے لگا۔ اے عباد اللہ! (مسلمانو!) اپنے پیچھے والوں سے خبردار ہو جاؤ۔ اس پر آگے جو مسلمان تھے وہ لوٹ پڑے اور اپنے پیچھے والوں سے بھڑ گئے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ انہیں میں ہیں (جنہیں مسلمان اپنا دشمن مشرک سمجھ کر مار رہے تھے)۔ وہ کہنے لگے مسلمانو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ عروہ نے کہا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، پس اللہ کی قسم انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک قتل نہ کر لیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا کہ اللہ مسلمانوں کی غلطی معاف کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حذیفہ رضی اللہ عنہ برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔ «بصرت» یعنی میں دل کی آنکھوں سے کام کو سمجھتا ہوں اور «أبصرت» آنکھوں سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ «بصرت» اور «أبصرت» کے ایک ہی معنی ہیں۔ «بصرت» دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور «أبصرت» ظاہر کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4065  
4065. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اُحد کے دن مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے تو ابلیس لعین نے بآواز بلند کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں سے خبردار ہو جاؤ، اس بنا پر آگے جانے والے پیچھے آنے والوں سے بھٹ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے دیکھا کہ ان کے والد گرامی یمان انہی میں ہیں (جنہیں مسلمان اپنا دشمن سمجھ کر مار رہے ہیں)۔ وہ کہنے لگے: اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد کا خیال کرو لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ حضرت عروہ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ ؓ ان کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہے حتی کہ حضرت حذیفہ ؓ فوت ہو گئے۔ (امام بخاری ؓ کہتے ہیں:) أبصرت کے معنی صاحب بصیرت ہونا ہے، یعنی اس کے معنی علمت کسی امر میں بصیرت ہے جبکہ أبصرت آنکھوں سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بصرت اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4065]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ مذکورہ احادیث میں کسی نہ کسی طرح سے جنگ احد کے حالات بیان کئے گئے ہیں جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک عظیم حادثہ ہے۔
ان کی تفصیلات کے لیے دفتر بھی نا کافی ہیں ہر حدیث کا بغور مطالعہ کرنے والوں کو بہت سے اسباق مل سکیں گے۔
خدا توفیق مطالعہ عطا کرے۔
دیکھا جارہا ہے کہ قرآن و حدیث کے حقیقی مطالعہ سے طبائع دور تر ہوتی جارہی ہیں۔
ایسے پر فتن والحاد پرور دور میں یہ ترجمہ اور تشریحات لکھنے میں بیٹھا ہوا ہوں کہ قدرداں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں پھر بھی پوری کتاب اگر اشاعت پذیر ہوگئی تو یہ صداقت اسلام کا ایک زندہ معجزہ ہوگا۔
اللھم آمین۔
یا اللہ! بخاری شریف مترجم اردو کی تکمیل کرنا تیرا کام ہے اپنے محبوب بندوں کو اس خدمت میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرما۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4065   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4065  
4065. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اُحد کے دن مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے تو ابلیس لعین نے بآواز بلند کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں سے خبردار ہو جاؤ، اس بنا پر آگے جانے والے پیچھے آنے والوں سے بھٹ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے دیکھا کہ ان کے والد گرامی یمان انہی میں ہیں (جنہیں مسلمان اپنا دشمن سمجھ کر مار رہے ہیں)۔ وہ کہنے لگے: اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد کا خیال کرو لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ حضرت عروہ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ ؓ ان کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہے حتی کہ حضرت حذیفہ ؓ فوت ہو گئے۔ (امام بخاری ؓ کہتے ہیں:) أبصرت کے معنی صاحب بصیرت ہونا ہے، یعنی اس کے معنی علمت کسی امر میں بصیرت ہے جبکہ أبصرت آنکھوں سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بصرت اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4065]
حدیث حاشیہ:

حضرت حذیفہ ؓکے والد گرامی حضرت یمان ؓ اور حضرت ثابت بن وقش بوڑھے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بچوں اور عورتوں میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
انھوں نے شہادت لینے کے لیے تلواریں اٹھائیں اور ہزیمت کے بعد مسلمانوں سے جا ملے۔
مسلمانوں نے انھیں نہ پہچانا۔
حضرت ثابت کو تو مشرکین نے شہید کیا لیکن حضرت یمان ؓ پر مسلمانوں کی تلواریں برسنے لگیں۔
چونکہ ہیجان کا وقت تھا اس لیے مسلمانوں نے حضرت حذیفہ ؓ کی آواز پر کان نہ دھرا اور ان کے والد کو غلطی سےقتل کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا خون بہا دینا چاہا لیکن حضرت حذیفہ ؓ نے معاف کردیا۔
جس نے حضرت یمان ؓ کو غلطی سے قتل کیا تھا۔
وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے بھائی حضرت عتبہ بن مسعود ؓ تھے۔
(فتح الباري: 453/7)

امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ روایت میں کوئی لفظ قابل تفسیر ہو تو قرآن مجید کے حوالے سے اس کی لغوی تحقیق کر دیتے ہیں فرمایا:
کہ (بَصُرْتُ)
جب مجرد باب سے ہو تو اس کے معنی بصیرت یعنی دل سے دیکھنا ہیں اور جب مزید فیه کا باپ ہو تو اس کے معنی بصارت یعنی آنکھ سے دیکھا ہیں بعض نے یہ بھی کہا کہ مجرد اور مزید فیہ دونوں ایک ہی معنی دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
سامری نے کہا:
میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔
(طٰه: 96)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4065