صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
27. بَابُ يُبْدِي ضَبْعَيْهِ وَيُجَافِي فِي السُّجُودِ:
باب: سجدہ میں اپنی بغلوں کو کھلی رکھے اور اپنی پسلیوں سے (ہر دو کہنیوں کو) جدا رکھے۔
حدیث نمبر: 390
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ، عَنْ ابْنِ هُرْمُزَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ"، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے حدیث بیان کی بکر بن مضر نے جعفر سے، وہ ابن ہرمز سے، انہوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی اور لیث نے یوں کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 235  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن ابن بحينة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا صلى وسجد فرج بين يديه حتى يبدو بياض إبطيه. متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا فرماتے اور سجدہ کرتے تو اس حالت میں اپنے دونوں بازو اپنے پہلووں سے الگ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 235]

لغوی تشریح:
«فَرَّجَ» تفریج (باب تفعیل) سے ماضی کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی ہیں: دونوں پلوؤں کے درمیان دوری، کشادگی اور فراخی پیدا کرنا ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازوؤں کو اپنی رانوں سے اتنا الگ رکھے کہ بغلوں کا اندرون بھی نمایاں ہو جائے۔ اس حدیث کی بنا پر امام طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں جسم اطہر کے دوسرے اعضاء کی طرح سفید تھیں، سیاہ نہ تھیں۔ یہ آپ کی دیگر خصوصیات و امتیازات کی طرح ایک خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کی تصریح طبری نے کتاب الاحکام کے باب الاستسقاء میں کی ہے کہ آپ کی بغلیں دوسروں کی طرح سیاہ نہ تھیں بلکہ سفید تھیں۔

راویٔ حدیث: (سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ) ان کا پورا نام عبداللہ بن مالک بن قشب (قاف کے نیچے کسرہ اور شین ساکن) أزدی ہے۔ اور بُحینہ (تصغیر کے ساتھ) ان کی والدہ کا نام ہے۔ والدہ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ورنہ والد کا نام مالک ہے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ بڑے زاہد، شب زندہ دار اور صائم النہار تھے۔ دنیا سے بڑے بے رغبت تھے۔ مدینے سے تیس میل کے فاصلے پر واقع وادیٔ ریم میں 54 اور 58 ہجری کے درمیان وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 235   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:390  
390. حضرت عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے ہاتھوں کو کشادہ رکھتے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں طور پر ظاہر ہوتی۔ لیث کہتے ہیں: جعفر بن ربیعہ نے مجھ سے اس طرح کی روایت بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:390]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ اس باب میں اتمام سجدہ کی مزید تشریح کر رہے ہیں کہ سجدہ کرتے وقت ہاتھوں کو کشادہ اور انھیں پہلوؤں سے الگ رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اسی انداز سے کرتے تھے۔
نیز دوران سجدہ میں اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ رکھتے۔
یہ وجہ بھی ہو سکتی ہےکہ بوقت سجدہ جسم کے تمام اعضاء سجدہ کرتے ہیں، اگر جسم کو سمیٹ کر اور اعضائے جسم کو آپس میں ملا کر سجدہ کیا جائے تو سب اعضاء سمٹ کر ایک ہی عضو کی شکل اختیار کر جائیں گے اور ہر عضو کو مستقل طور پر سجدے کا حصہ نہیں مل سکے گا جو شریعت کو مطلوب ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہےکہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضائے جسم بھی سجدہ کرتے ہیں چہرہ، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنےاور دونوں پاؤں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ چہرے کی طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 891۔
892)

یہی وجہ ہے کہ دوران سجدہ میں افتراش ذراعین (بازوؤں کو بچھانے)
کی ممانعت آئی ہے۔
واللہ أعلم۔

حضرت بحینہ ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کی والدہ کا نام ہے اور حضرت مالک ؓ ان (عبد اللہ ؓ)
کے والد کا نام ہے۔
عام دستور سے ہٹ کر حضرت عبد اللہ ؓ کا انتساب ماں باپ دونوں کی طرف کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مالک کے آخر میں تنوین پڑھی جاتی ہے اور ابن بحینہ میں ابن کے الف کو لکھنا چاہیے، کیونکہ اس مقام پر ابن مالک ؓ کی صفت نہیں۔
(عمدة القاري: 356/3)

امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کی ہے جسے امام مسلم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو بازوؤں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ لیتا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1106۔
(495)
اس تعلیق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدیث مذکورمیں بکر نامی راوی نے اپنے شیخ جعفر بن ربیعہ سے بصیغہ عن بیان کیا تھا اور لیث نے ان سے تحدیث کی صراحت کی ہے، نیز اس روایت میں لفظ سجدہ کی صراحت نہ تھی (إذَا صَلَّى)
کے الفاظ تھے، جبکہ لیث کی روایت میں (إذَا سَجَدَ)
کی صراحت ہے۔
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے خود بھی ایک روایت میں (إذَا سَجَدَ)
کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
(صحیح البخاری، المناقب، حدیث: 3546)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 390