مختصر صحيح مسلم
منافقین کے متعلق

اللہ تعالیٰ کے فرمان ”(اے محمد!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو .... یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں“ کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 1938
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبداللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی منافقوں سے کہا کہ تم ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں، کچھ مت دو، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ نکلیں۔ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قرآت ہے جس نے من حولہ پڑھا ہے (اور یہی قرآت مشہور ہے اور قرآت شاذ من حولہ ہے، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہیں) اور عبداللہ بن ابی منافق نے کہا کہ اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا (یعنی مردود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پچھوایا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولا ہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورۃ ((اذا جآئک المنافقون)) اتری۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعائے مغفرت کے لئے بلایا، لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لئے (یعنی نہ آئے) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔