مختصر صحيح مسلم
فتنوں کا بیان

ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2048
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے)، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوں کا اور آپس کی لڑائیوں کا)، اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوں گا (اس سے لڑائی کروں گا) اور تمہیں اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا۔ البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے، اس کو چاہئے کہ سورۃ الکہف کی شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقیناً وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا، اس دن ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا)۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔ پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو وہ گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے، تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی (یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا۔ اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردار مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر تک عیسیٰ علیہ السلام کے دم کی خوشبو پہنچے گی، وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو باب لد (نامی پہاڑ جو کہ شام میں ہے) پر موجود پا کر اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہو گا۔ پس وہ شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، تم میرے مسلمان بندوں کو طور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچان سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہر مومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے، گدھوں کی طرح سرعام عورتوں سے جماع کریں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔