مختصر صحيح مسلم
تفسیر قرآن مجید

اللہ تعالیٰ کے فرمان ((لا تحسبنّ الّذین ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ آل عمران)۔
حدیث نمبر: 2128
حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جا اور کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر اس آدمی کو عذاب ہو جو اپنے کئے پر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اس بات پر تعریف کریں جو اس نے نہیں کی، پھر تو ہم سب کو عذاب ہو گا (کیونکہ ہم سب میں یہ عیب موجود ہے) تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں اتری ہے۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت ((واذ اخذ اﷲ ....)) آخر تک پڑھی اور پھر ((لا تحسبنّ الّذین ....)) آیت پڑھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے بدلے دوسری بات بتائی۔ پھر اس حال میں نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سمجھایا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بات بتا دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے اور دل میں اپنے کئے پر خوش ہوئے (یعنی اپنی اصل بات کے چھپانے پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھی تو اللہ تعالیٰ انہیں کو فرماتا ہے کہ ان کو عذاب ہو گا اور مراد وہی اہل کتاب ہیں)۔