بلوغ المرام
كتاب الطهارة -- طہارت کے مسائل
1. باب المياه
پانی کی اقسام (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حدیث نمبر: 10
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: جاء أعرابي فبال في طائفة المسجد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فزجره الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنهاهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قضى بوله أمر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بذنوب من ماء فأهريق عليه. متفق عليه.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی آیا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو لوگوں نے اسے ڈانٹا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا، جب بدوی پیشاب سے فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول طلب فرمایا اور اس جگہ پر بہا دیا (جہاں اس نے پیشاب کیا تھا)۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الوضوء، باب صب الماء علي البول في المسجد، حديث: 221(ب)واللفظ له، ومسلم، الطهارة، باب وجوب غسل البولوغيره من النجاسات...، حديث: 284.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 10  
´آدمی کا پیشاب ناپاک ہے`
«. . . جاء اعرابي فبال في طائفة المسجد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فزجره الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنهاهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قضى بوله امر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بذنوب من ماء فاهريق عليه . . .»
. . . ایک بدوی آیا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو لوگوں نے اسے ڈانٹا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا، جب بدوی پیشاب سے فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول طلب فرمایا اور اس جگہ پر بہا دیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 10]

لغوی تشریح:
«أَعْرَابِيٌّ» اعراب کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے اعرابی کہا گیا ہے، یعنی بادیہ نشین۔ اس کے معنی بدوی اور دیہاتی کے ہیں۔ یہ اعرابی کون تھے؟ بعض نے کہا ہے کہ وہ ذوالخویصرۃ یمانی تھے اور وہ شہری آداب سے ناواقف تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ «معكبر الضبيي» تھے۔
«طَائِفَةِ الْمَسْجِدِ» مسجد کا ایک کونہ یا کنارہ، یعنی مسجد کی ایک جانب۔
«فَزَجَرَهُ النَّاسُ» لوگوں نے اسے ڈانٹا، جھڑکا، سختی سے منع کیا۔
«فَنَهَاهُمْ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور پیشاب رکوانے کی کوشش سے منع فرمایا کیونکہ پیشاب منقطع کرنا ضرر رساں ہے اور بسا اوقات ایسا کرنے سے گردے اور مثانے کا خطرناک مرض لاحق ہو جاتا ہے، نیز اس طرح پیشاب کا منقطع کرنا بدن، لباس اور مسجد کے دوسرے حصوں کو نجس اور گندہ کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
«بِذَنُوبٍ» ذال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ پانی سے لبالب بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔
«فَأُهٰرِيقَ» دراصل «أُرِيقَ» تھا، ہمزہ کو ہا سے بدل کر اس پر مزید ایک ہمزے کا اضافہ کر دیا گیا۔ جس کے معنی ہیں: انڈیل دیا گیا۔

فوائد و مسائل:
➊ امام ترمذی نے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے اور سے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ آدمی کا پیشاب ناپاک ہے۔ امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ زمین اگر ناپاک ہو تو پانی سے پاک ہو جاتی ہے، خواہ زمین نرم و سہل ہو یا سخت و صعب۔
➋ اس حدیث سے مسجد کی عظمت اور اس کا احترام، نادان آدمی کے ساتھ نرمی کرنا، سختی اور درشتی نہ کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن خلق، نہایت عمدہ طریقے سے تعلیم دینا اور دوسرے کئی ایک مسائل نمایاں ہیں۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا انس رضی اللہ عنہ: ER رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں۔ ان کو ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت کے لیے خدمت گار کے طور پر پیش کر کے سعادت حاصل کی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے لے کر آخری سانس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کرتے رہے۔ ابوحمزہ ان کی کنیت تھی۔ خزرج کے قبیلہ نجار سے ہونے کی وجہ سے نجاری خزرجی کہلاے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرہ کو جائے سکونت بنایا اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ نے 91 یا 92 یا 93 ہجری میں وفات پائی جب کہ آپ کی عمر 99 یا 103 سال تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 10   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 221  
´ مسجد میں پیشاب پر پانی بہا دینے کے بیان میں `
«. . . سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ` ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے پیشاب) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بہا دیا گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ صَبِّ الْمَاءِ عَلَى الْبَوْلِ فِي الْمَسْجِدِ: 221]

تخريج الحديث:
[162۔ البخاري فى: 78 كتاب الأدب: 35 باب الرفق فى الأمر كله 221، مسلم 284، ترمذي 148]
لغوی توضیح:
«اَعْرَابِيًّا» دیہاتی۔
«لَا تُزْرِمُوْهُ» اس کے پیشاب کو اس پر مت روکو۔ معلوم ہوا کہ جاہل کے ساتھ نرمی برتنی چاہئیے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل میں مصلحت بھی تھی کہ اگر اسے روکا جاتا تو ممکن تھا اسے پیشاب کی کوئی تکلیف ہو جاتی اور پھر وہ ادھر اُدھر بھاگتا تو اس کے کپڑے اور دوسری جگہیں بھی پلید ہو جاتیں جبکہ ایک ہی جگہ سے اس کے پیشاب کو دھونا آسان تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین کو پاک کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس پر پانی بہا دیا جائے۔ علاوہ ازیں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ زمین سورج یا ہوا سے خشک ہو جائے حتیٰ کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو بھی اسے پاک ہی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ جس نجاست کی وجہ سے اس پر پلیدگی کا حکم لگایا گیا تھا اب وہ باقی ہی نہیں رہی لہٰذا اس کا حکم بھی نہ رہا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 162   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 10  
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله»
اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔
➊ اس پر امت کا اجماع ہے۔ [بداية المجتهد 73/1] ۳؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ»
جب تم میں سے کوئی (چلتے ہوئے) اپنی جوتی کو گندگی لگا دے تو مٹی سے پاک کر دیتی ہے۔ [أبو داود 385]
ایک روایت میں یہ الفاظ مرفوعا مروی ہیں:
«إِذَا وَطِئَ الْأَذَى بِخُفَّيْهِ، فَطَهُورُهُمَا التُّرَابُ»
جب کوئی اپنے موزوں کو گندگی لگا دے تو انہیں پاک کرنے والی مٹی ہے۔ [أبو داود 386] ۴؎
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیشاب کرنے والے دیہاتی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینے کا حکم دیا۔ [بخاري 221] ۵؎
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کا پیشاب نجس ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ [نيل الأوطار 88/1]
------------------
۳؎ [بداية المجتهد 73/1، المغني 52/1، فتح القدير 135/1، كشاف القناع 213/1، مغني المحتاج 77/1، اللباب 55/1، الشرح الصغير 49/1]
۴؎ [صحيح: صحيح أبو داود 372، 371 كتاب الطهارة: باب فى الأذي يصيب النعل، بيهقي 430/2، ابن حبان ص85ء الموارد، حاكم 166/1، ابن خزيمة 148/1، شرح معاني الآثار 511/1، أبو داود 385، 382]
۵؎ [بخاري 221، كتاب الوضوء: باب صب الماء على البول فى المسجد، مسلم 284، ترمذي 148، نسائي 175/1، ابن ماجة 528، شرح معاني الآثار13/1، ابوعوانة 213/1، عبدالرزاق 1660، بيهقي 327/2، أحمد 110/3، دارمي 189/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 142   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 53  
´پانی کی عدم تحدید کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس پر جھپٹے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کرنے دو روکو نہیں ۱؎، جب وہ فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی منگوایا، اور اس پر انڈیل دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: یعنی بیچ میں نہ روکو پیشاب کر لینے دو۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 53]
53۔ اردو حاشیہ:
➊ اس باب میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جو مذکورہ احادیث (پچھلے باب کے تحت) میں بیان شدہ تحدید سے خالی یا ظاہراً اس کے خلاف محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے جامع ترمذی، سنن ابوداود اور سنن نسائی کے بعض نسخوں میں مروی ہے، فرماتے ہیں: «قیل: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نتو ضا من بئر بضاعة وھی بئر یلقی فیھا الحیض ولحوم الکلاب والنتن؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن الماء طھور لا ینجسه شیء» اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا کہ ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر لیا کریں؟ کیونکہ اس میں حیض کے چیتھڑے، کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں پھینکی جاتی ہیں تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا کھلا) پانی طاہر اور مطہر رہتا ہے، ایسی کوئی چیز اسے پلید نہیں کرتی۔ [جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 66، و سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 66]
➋ بئر بضاعہ ایک محلے کا کنواں تھا جس کے اردگرد منڈیر بلند نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ چیزیں آندھی یا بارشی پانی کی وجہ سے کنویں میں گر جاتی تھیں نہ کہ انہیں قصداً ڈالا جاتا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ جیسی جماعت سے اس کا تصور بھی محال ہے اور پھر بعد میں ان چیزوں کو کنویں سے نکال بھی دیا جاتا تھا جیسا کہ رہائشی علاقوں کے کنوؤں میں ہوتا ہے بلکہ مزید پانی نکال کر گندگی کے اثرات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ ان وضاحتی قیود کو ذہن میں رکھ کر حدیث کو پڑھا جائے۔
➌ اس کنویں کا پانی ظاہر ہے کہ کثیر پانی تھا اور دو قلے سے زائد تھا، لہٰذا یہ پلید چیزیں نکالے جانے اور ان کے اثرات ختم کیے جانے کے بعد جب پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ صحیح رہتا تھا، تو پانی پلید ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بعض حضرات نے قلتین والی روایت کے مخالف سمجھا ہے کیونکہ ایک ڈول پانی ہر حال میں قلتین سے کم ہے۔ اور پیشاب پر ڈالنے سے وہ پانی پلید نہیں ہوا بلکہ جگہ بھی پاک ہو گئی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی گندگی پر پانی ڈالنا الگ بات ہے اور پانی پر گندگی کا واقع ہونا الگ بات ہے۔ اور قلتین والی حدیث پانی میں گندگی پڑنے کی صورت ہے، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں، جیسے ہر درندہ جو حرام ہے اس کا جوٹھا پلید ہے، مگر بلی کا جوٹھا پاک ہے۔ خاص چیز کے حکم میں کوئی خصوصی مصلحت ہو سکتی ہے جو عام ضابطے کو ختم نہیں کر سکتی۔ متعلقہ مسئلے میں چونکہ پیشاب زمین میں جذب ہو چکا تھا اور ایسی زمین کو نجاست سے مکمل طور پر پاک کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا لوگوں کی تنگی کے پیش نظر ایک ڈول بہانا کافی سمجھا گیا جس سے زمین کی بالائی سطح پر باقی ماندہ پیشاب کے اثرات زائل ہو جائیں اور پانی کے ساتھ نیچے چلے جائیں اور سطح زمین صاف ہو جائے۔
➎ یہ حدیث نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی اعلیٰ مثال ہے کہ آپ اس کی غیرمہذب حرکت پر اشتعال میں نہیں آئے بلکہ اسے معذور سمجھ کر اپنے پاس بلایا اور پیار سے مسئلہ سمجھایا۔ اس حسن سلوک کا اس شخص نے بعد میں اعلانیہ اظہار کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 53   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 55  
´پانی کی عدم تحدید کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اس پر چیخے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو (کرنے دو) تو لوگوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر بہا دیا گیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 55]
55۔ اردو حاشیہ: اس شخص کا نام ذوالخویصرہ تھا، چونکہ وہ پیشاب شروع کرچکا تھا اور جگہ بھی پلید ہو چکی تھی، اس لیے اسے روکنا بے فائدہ تھا، اب اسے روکتے تو ممکن تھا کہ پیشاب نہ رکتا اور وہ چلتے چلتے باقی مسجد بھی پلید کر ڈالتا یا پیشاب رک جاتا تو اس کے مثانے میں خرابی واقع ہو جاتی۔ گویا نبیٔ اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو متحقق خرابیوں اور مفاسد میں سے اس مفسدے کو برداشت اور اختیار کرنے کی تلقین کی جو نسبتاً دوسرے سے قباحت میں کم تھا اور وہ تھا مسجد میں پیشاب کرنا، جبکہ دوران پیشاب میں دیہاتی کو پیشاب کرنے سے روکنا، یہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے لیے اذیت ناک تھا اور مسجد میں مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ بھی تھا، لہٰذا اس دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے اس حدیث سے أخف الضررین، یعنی خفیف ترین ضرر اور اذیت کو بڑی اذیت اور قباحت کے مقابلے میں اختیار کرنے کا قاعدہ استخراج کیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 55   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 330  
´پانی (جو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا) کی تحدید کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس کی طرف بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ روکو (پیشاب کر لینے دو) جب وہ پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی منگا کر اس پر بہا دیا۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 330]
330۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 54، 56، 57 اور ان کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 330