صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
28. بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ:
باب: قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 392
حَدَّثَنَا نُعَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"،
ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن مبارک نے حمید طویل کے واسطہ سے، انہوں نے روایت کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کہیں۔ پس جب وہ اس کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہو گئے۔ مگر کسی حق کے بدلے اور (باطن میں) ان کا حساب اللہ پر رہے گا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:392  
392. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے کلمہ طیبہ کے قائل ہونے تک لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر جب وہ اس کلمہ طیبہ کے قائل ہو جائیں، ہماری طرح نماز ادا کرنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں اور ہمارے ذبیحے کو کھائیں تو اس وقت ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہو جائیں گے مگر حق (اسلام) کی صورت میں ان کی جان و مال سے تعرض درست ہو گا، باقی ان کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:392]
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلی روایت میں تھا کہ جو شخص تین چیزوں کو بجالاتاہے، اس سے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کا عہد قائم ہوجاتاہے۔
اس روایت میں کلمہ طیبہ کے اقرار کا اضافہ ہے اور اس عہد کی تشریح اور وضاحت بھی ہے جو پہلی حدیث میں قائم ہواتھا کہ ایسے شخص کے مال وجان کے بلاوجہ درپے ہونا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد (ذمے)
میں دخل اندازی کرنا ہے۔
ہاں اگرایسے شخص پر مال یا جان کا تاوان یا قصاص واجب ہوتو وہ اس سے ضرور وصول کیا جائےگا اور ایسا کرنا ذمے اور عہد کے خلاف نہیں ہوگا۔

اس روایت میں حمید طویل حضرت انس ؓ سے بصیغہ عن بیان کرتے ہیں۔
اس طرح سند میں عنعنة آجائے تواشتباہ پیدا ہوجاتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس کے بعد ایک سند لاکر اس اشتباہ کو ختم کرتے ہیں، کیونکہ اس میں تحدیث کی تصریح ہے، بلکہ اگلی روایت میں مزید وضاحت کردی کہ واقعی حمید الطویل نے حضرت انس ؓ سے بلاواسطہ اس حدیث کو بیان کیا ہے، کیونکہ ان کی موجودگی میں حضرت میمون بن سیاہ نے حضرت انس ؓ سے سوال کیا، چنانچہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 392