صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
30. بَابُ غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْيَ الأَحْزَابُ:
باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
حدیث نمبر: 4103
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ سورة الأحزاب آية 10 , قَالَتْ:" كَانَ ذَاكَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ.
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ (آیت) «إذا جاؤوكم من فوقكم ومن أسفل منكم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر» جب مشرکین تمہارے بالائی علاقہ سے اور تمہارے نشیبی علاقہ سے تم پر چڑھ آئے تھے اور جب مارے ڈر کے آنکھیں چکا چوند ہو گئی تھیں اور دل حلق تک آ گئے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت غزوہ خندق کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4103  
4103. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل فرمانِ باری تعالٰی کے متعلق فرمایا: جب وہ (مشرکین) تمہارے بالائی علاقے سے اور تمہارے نشیبی علاقے سے تم پر چڑھ آئے اور (مارے ڈر کے) تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور دل حلق تک آ گئے تھے۔ یہ صورت حال غزوہ خندق کے وقت پیش آئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4103]
حدیث حاشیہ:
اس جنگ کےموقع پرمسلمانوں کے پاس نہ کافی راشن تھا نہ سامان جنگ اوسخت سردی کازمانہ بھی تھا۔
خود مدینہ میں یہودی گھات میں لگے ہوئے تھے۔
کفار عرب ایک متحدہ محاز کی شکل میں بڑی تعداد میں چڑھ کرآئے ہوئے تھے مگر اس موقع پراندرون شہر مدافعت کی گئی اورشہر کوخندق کھود کرمحفوظ کیاگیا۔
چنانچہ اللہ کا فضل ہوا او ر کفار اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے اورناکام واپس لوٹ گئے اورمستقبل کےلیے ان کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔
اس جنگ میں حضرت حذیفہ بطور جاسوس کفار کی خبر لینے گئےتھے۔
انہوں نے آکر بتلایا کہ آندھی نےکفار کےسارے خیمے الٹ دئیے اور ان کی ہانڈیاں بھی اوندھے منہ ڈال دی ہیں اور وہ سب بھاگ گئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4103   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4103  
4103. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل فرمانِ باری تعالٰی کے متعلق فرمایا: جب وہ (مشرکین) تمہارے بالائی علاقے سے اور تمہارے نشیبی علاقے سے تم پر چڑھ آئے اور (مارے ڈر کے) تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور دل حلق تک آ گئے تھے۔ یہ صورت حال غزوہ خندق کے وقت پیش آئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4103]
حدیث حاشیہ:

اس آیت میں کفارکی اتحادی فوجوں کی لشکر کشی کا بیان ہے کہ کفار غطفان جو مدینے سے مشرقی جانب ہیں انھوں نے مسلمانوں پر اوپر کی جانب سے اورنیچے کی جانب مغرب کی طرف سے کفار قریش نے حملہ کیا، یعنی اتحادی کافروں نے مسلمانوں کو گھیرمیں لیا تھا۔
ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ تین ہزار فوجیوں کو لے کر ان کے مقابلے کے لیے نکلے اور اپنی پشتیں سلع پہاڑ کی طرف کر لیں تاکہ پیچھے سے کوئی حملہ آور نہ آئے۔
اپنے کفار کے درمیان خندق کھدوا دی، عورتوں اور بچوں کو ٹیلوں پر محفوظ جگہ میں رکھا تقریباً پچیس دن مدینے کا محاصرہ رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے سرد ہوا چھوڑی تو کفار کی اتحادی فوجیں منتشر ہو کر بھاگ نکلیں 2۔
اس جنگ کا آغاز اس طرح ہوا کہ غزوہ احد کے بعد غزوہ بنو نضیر پیش آیا جس کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینے سے نکال دیا گیا اور انھوں نے خیبر میں جا کر پناہ لے لی۔
انھی جلا وطن کیے ہوئے یہودیوں میں سے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد قریش مکہ کے پاس آیا اور انھیں مسلمانوں پر ایک اجتماعی اور کاری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔
کفار مکہ نے یہودی وفدکی اس تجویز سے اتفاق کیا۔
اس کے بعد یہ وفدغطفان کے پاس گیا۔
یہ قبیلہ چونکہ پہلے ہی یہود کا حلیف تھا، لہٰذا وہ بھی فوراً تیار ہو گیا۔
بعد ازاں یہ وفد دوسرے مسلمان دشمن قبائل کے پاس گیا حتی کہ تمام اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کر لیا، چنانچہ ذی قعدہ 5 ہجری میں جنوبی اطراف سے ابو سفیان کی سرکردگی میں کفار قریش کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل کا چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینے کی طرف روانہ ہوا۔
مراالظہران کے مقام پر بنو سلیم کے ذیلی قبائل بھی ابو سفیان کے لشکر سے آکر مل گئے۔
مشرقی اطراف سے غطفانی قبائل فزارہ، حرہ اور اشجع بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے۔
اس طرح مدینے تک پہنچتے پہنچتے اس لشکر کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی جبکہ مدینے کی کل آبادی بھی دس ہزار سے کم تھی۔
اس میں سے جنگجو افراد صرف تین ہزار تھے اور ان تین ہزار میں منافقین بھی شامل تھے اگر مسلمانوں نے خندق کھود کر بروقت اپنا دفاع نہ کر لیا ہوتا تو یہ بہت بڑا لشکر مسلمانوں کو ایک ہی حملے میں نیست و نابود کرنے کے لیے کافی تھا ایسے حالات میں مذکورہ بالا آیت کا نزول ہوا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4103