صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
31. بَابُ مَرْجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ:
باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4122
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ: حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَةِ وَهُوَ حِبَّانُ بْنُ قَيْسٍ مِنْ بَنِي مَعِيصِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ رَمَاهُ فِي الْأَكْحَلِ , فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ , فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ , فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ , فَقَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهُ اخْرُجْ إِلَيْهِمْ , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَيْنَ" , فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ , فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِ , فَرَدَّ الْحُكْمَ إِلَى سَعْدٍ , قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ , وَأَنْ تُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَّةُ , وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ , قَالَ هِشَامٌ فَأَخْبَرَنِي أَبِي , عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ سَعْدًا قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ , مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ , اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْءٌ , فَأَبْقِنِي لَهُ حَتَّى أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ , وَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْهَا وَاجْعَلْ مَوْتَتِي فِيهَا , فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِهِ فَلَمْ يَرُعْهُمْ وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ , فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ , فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا فَمَاتَ مِنْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ غزوہ خندق کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے۔ قریش کے ایک کافر شخص ‘ حسان بن عرفہ نامی نے ان پر تیر چلایا تھا اور وہ ان کے بازو کی رگ میں آ کے لگا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تھا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں۔ پھر جب آپ غزوہ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے۔ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے۔ اللہ کی قسم! ابھی میں نے ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔ آپ کو ان پر فوج کشی کرنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کن پر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ تک پہنچے (اور انہوں نے اسلامی لشکر کے پندرہ دن کے سخت محاصرہ کے بعد) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کا اختیار دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دیئے جائیں ‘ ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کا مال تقسیم کر لیا جائے۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی اب ختم کر دی ہے۔ لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا کوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھنا۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے کو تو نے ختم ہی کر دیا ہے تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے اور اسی میں میری موت واقع کر دے۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہو گیا۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے کچھ صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا۔ خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرائے اور انہوں نے کہا: اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف بہہ کر آ رہا ہے؟ دیکھا تو سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا ‘ ان کی وفات اسی میں ہوئی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 711  
´مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ۱؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 711]
711 ۔ اردو حاشیہ:
➊ عیادت کے علاوہ ایک اور سبب علاج بھی تھا جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپ ان کا علاج بھی کرتے رہے تھے، لیکن اس رگ میں زخم ہو جائے تو عموماً خون نہیں رکتا بلکہ موت یقینی ہو جاتی ہے۔
➋ اس حدیث سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی منقبت و مرتبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ مریض کی تیمارداری کرنا سنت ہے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 711   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 202  
´مساجد کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ غزوہ خندق کے روز سیدنا سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے مسجد میں خیمہ لگوایا تھا، تاکہ قریب سے ان کی تیمارداری (بآسانی) کر سکیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 202]
202 لغوی تشریح:
«أُصِيبَ سَعْدٌ» «سعد» سے مراد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو اوس کے سردار تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر ان کے بازو کی رگ (اکحل ہفت اندام رگ) میں دشمن کا تیر لگا اور خون جاری ہو گیا۔ خون رکنے میں نہیں آتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰٰ سے استدعا کی کہ وہ انہیں اس وقت تک موت نہ دے جب تک وہ بنو قریظہ کا انجام نہ دیکھ لیں۔ اسلامی لشکر نے ان کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ خون بہنا بند ہو گیا۔ پھر جب بنو قریظہ نے ان کو حکم بنایا کہ جو وہ فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے۔ جب بنو قریظہ ان کے فیصلہ کے مطابق گڑھیوں سے نیچے اتر آئے اور ان کے قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا گیا تو خون دوبارہ جاری ہو گیا، یہاں تک کہ وفات پا گئے اور ان کی وفات غزوہ خندق میں تیر لگنے کے ایک ماہ بعد ہوئی۔ اور غزوہ احزاب شوال 5 ھ میں پیش آیا۔ اس معرکہ میں قریش، غطفان وغیرہ قبائل یہودی سازش سے مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو گئے تھے اور سب نے مل کر مدینے کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ مسلمانوں کو جب ان لوگوں کی سازش کا علم ہوا تو انہوں نے مدینے کی شمالی جانب خندق کھود لی۔ محاصرے نے پچیس 25 روز تک طول کھینچا۔ پھر ناکام و نامراد ہو کر واپس لوٹ گئے۔
«فَضَرَبَ عَلَيْهِ» خیمہ اس کے لئے نصب کیا۔
«لِيَعُودَهُ» تاکہ ان کی تیمارداری کر سکیں۔ «عيادة» سے ماخوز ہے۔ عیادت مریض کے حال احوال پوچھنے کے لئے جانے اور ملاقات کرنے کو کہتے ہیں

فوائد و مسائل:
➊ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت مسجد میں مریض کے قیام کے لئے خیمہ وغیرہ نصب کرنا جائز ہے۔
➋ مسجد میں سونا، بیمار یا زخمی کی تیمارداری کرنا اور اس کے علاج کا بندوبست کرنا بھی درست اور جائز ہے

۔ راوی حدیث:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ، یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ کبار صحابہ میں سے ہیں، انہوں نے بیت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شرکت کی اور اسلام قبول کیا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بن عبدالاشہل نے اسلام قبول کیا۔ اپنی قوم میں سردار اور شریف انسان تھے، قوم ان کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتی۔ ان کی رگ اکحل میں غزوہ خندق کے موقع پر ایک تیر لگا جس کی وجہ سے ذی تعدہ 5 ھ کو واقعہ بنی قریظہ کے بعد فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 202   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3101  
´بیمار کی کئی بار عیادت (بیمار پرسی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3101]
فوائد ومسائل:

مریض کے احوال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عیادت کے لئے بار بار آنا اسلامی اور اخلاق حسنہ کا حصہ ہے۔
نہ کہ کوئی معوب بات۔
بالخصوص مریض جب کوئی اہم آدمی ہو۔


ضرورت شرعی کے تحت مسجد (یا اس کے ساتھ ملحق حجروں) میں اقامت اختیارکرلینا یا کسی کو اقامت دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4122  
4122. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سعد ؓ زخمی ہو گئے تھے۔ قریش کے ایک حبان بن عرقہ نامی شخص۔۔ جس کا اصل نام حبان بن قیس تھا اور وہ بنو معیص بن عامر بن لؤی کے قبیلے سے تھا۔۔ نے انہیں تیر مارا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ نبی ﷺ نے مسجد میں ان کا خیمہ نصب کرایا تھا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کر لیا کریں۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے واپس لوٹے، ہتھیار اتار دیے اور غسل فرما لیا تو حضرت جبریل ؑ حاضر ہوئے جبکہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ نے تو ہتھیار اتار دیے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ابھی نہیں اتارے۔ آپ ان کی طرف چلیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کدھر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی تو انہوں نے آپ کا فیصلہ قبول کر لیا، لیکن آپ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4122]
حدیث حاشیہ:
ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہودیوں کے مختلف قبائل اور آس پاس کے دوسرے مشرک عرب قبائل سے صلح کر لی تھی۔
لیکن یہودی برابر اسلام کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے تھے۔
درپردہ تو ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی برابر ہی ہوتی رہتی تھی لیکن غزوئہ خندق کے موقع پر جو انتہائی فیصلہ کن غزوہ تھا اس میں خاص طور سے بنو قریظہ نے بہت کھل کر قریش کا ساتھ دیا اور معاہدہ کی خلافت ورزی کی تھی۔
اس لیے غزوئہ خندق کے فوراً بعد اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ مدینہ کو ان سے پاک کرنا ہی ضروری ہے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
قرآن پاک کی سورۃ حشر اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی۔
ایک روایت میں ہے کہ سعد بن معاذ ؓ لیٹے ہوئے تھے۔
اتفاق سے ایک بکری آئی اور اس نے ان کے سینہ پر اپنا کھر رکھ دیا جس سے ان کا زخم پھر سے تازہ ہو گیا۔
جو ان کی وفات کا سبب ہوا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4122   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4122  
4122. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سعد ؓ زخمی ہو گئے تھے۔ قریش کے ایک حبان بن عرقہ نامی شخص۔۔ جس کا اصل نام حبان بن قیس تھا اور وہ بنو معیص بن عامر بن لؤی کے قبیلے سے تھا۔۔ نے انہیں تیر مارا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ نبی ﷺ نے مسجد میں ان کا خیمہ نصب کرایا تھا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کر لیا کریں۔ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے واپس لوٹے، ہتھیار اتار دیے اور غسل فرما لیا تو حضرت جبریل ؑ حاضر ہوئے جبکہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ نے تو ہتھیار اتار دیے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ابھی نہیں اتارے۔ آپ ان کی طرف چلیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کدھر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ پر چڑھائی کی تو انہوں نے آپ کا فیصلہ قبول کر لیا، لیکن آپ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4122]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرنے سے پہلے حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓ کو پیش قدمی کے طور پر روانہ فرمایا، پھر آپ نے خودان پر فوج کشی کی۔
پچیس دن کے محاصرے کے بعد انھوں نے خود کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو مناسب خیال کریں، فیصلہ فرمائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے محمد بن مسیلمہ ؓ کی زیرنگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیے، عورتوں اور بچوں کو مردوں سے الگ کردیا۔
پھرآپ ﷺ نے قبیلہ اوس کی درخواست پر ان کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے حوالے کردیا۔
حضرت سعد ؓ کا فیصلہ انتہائی عدل وانصاف پرمبنی تھا، چنانچہ انھیں مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت کے گھر میں قید کردیا۔
پھر جب ان کے قتل کا وقت آپہنچا تو مدینہ طیبہ میں نالیاں کھودی گئیں جو ان کے خون سے بھر گئیں۔
اس طرح ان دغا بازوں کی گردنیں اُڑائی گئیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔
ان میں سے ریحانہ بنت عمرو کو آپ نے اپنے لیے منتخب فرمایا اور باقی قیدیوں کو نجد کے علاقے میں فروخت کرکےان کے عوض ہتھیار خرید لیے۔
اس کارروائی کے ذریعے سے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا جو مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کے کے خاتمے کے لیے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کررکھی تھیں۔
بنوقریظہ کی اس تباہی کے ساتھ ہی بنونضیر کا ایک شیطان اور جنگ احزاب کا ایک بڑا مجرم حی بن اخطب بھی اپنے کیفرکردار کو پہنچ گیا۔
یہ شخص حضرت صفیہ ؓ کا باپ تھا۔

رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم تھا کہ جسے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے۔
چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے لہذا انھیں زندہ چھوڑدیا گیا، چنانچہ وہ مسلمان ہوکر شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔
اسی طرح حضرت رفاعہ کو بھی بنو نجار کی ایک خاتون سلمیٰ بنت قیس ؓ کی درخواست پر انھیں ہبہ کردیا گیا۔
وہ بھی شرف اسلام سے مشرف ہوئے۔
چند اور افراد نے بھی ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا، لہذا ان کی جان اورمال، نیز ان کی اولاد بھی محفوظ رہی۔
بنوقریظہ کے اموال کو رسول اللہ ﷺ نے خمس نکال کر مجاہدین میں تقسیم کردیا۔
جس کے پاس گھوڑا تھا اسے تین حصے اور جو پیدل تھا اسے ایک حصہ دیا گیا۔

یہ غزوہ ذی القعدہ میں پیش آیا اور پچیس روز تک ان کا محاصرہ رہا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب میں اس کے متعلق آیات نازل فرمائیں اور اس کی اہم جزئیات کا ذکر کیا۔
دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور ان کی پست ہمتی پر تبصرہ فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4122