صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
32. بَابُ غَزْوَةُ ذَاتِ الرِّقَاعِ:
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
حدیث نمبر: 4136
وَقَالَ أَبَانُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الرِّقَاعِ فَإِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَسَيْفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّقٌ بِالشَّجَرَةِ فَاخْتَرَطَهُ فَقَالَ: تَخَافُنِي؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ:" اللَّهُ" , فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ تَأَخَّرُوا , وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الْأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ , وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ , وَقَالَ مُسَدَّدٌ: عَنْ أَبِي عَوَانَةَ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ: اسْمُ الرَّجُلِ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ وَقَاتَلَ فِيهَا مُحَارِبَ خَصَفَةَ.
اور ابان نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذات الرقاع میں تھے۔ کہ ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے۔ وہ درخت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کر دیا کہ آپ وہاں آرام فرمائیں۔ بعد میں مشرکین میں سے ایک شخص آیا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھینچ لی اور پوچھا ‘ تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اس نے پوچھا آج میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ! پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے ڈانٹا دھمکایا اور نماز کی تکبیر کہی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی جب وہ جماعت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے) ہٹ گئی تو آپ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت نماز ہوئی۔ لیکن مقتدیوں کی صرف دو دو رکعت اور مسدد نے بیان کیا ‘ ان سے ابوعوانہ نے ‘ ان سے ابوبسر نے کہ اس شخص کا نام (جس نے آپ پر تلوار کھینچی تھی) غورث بن حارث تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں قبیلہ محارب خصفہ سے جنگ کی تھی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4136  
4136. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم غزوہ ذات الرقاع میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم ایک سایہ دار درخت کے پاس آئے تو وہ ہم نے نبی ﷺ کے لیے چھوڑ دیا۔ اس دوران مشرکین میں سے ایک مشرک آیا جبکہ نبی ﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے آپ کی تلوار کو نیام سے نکال کر کہا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ۔ نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے یہ صورت حال دیکھ کر اسے خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ پھر نماز کھڑی کر دی گئی تو آپ ﷺ نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں، پھر صحابہ کرام ؓ پیچھے ہٹ گئے تو دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں۔ نبی ﷺ کی چار رکعات اور لوگوں کی دو، دو رکعتیں تھیں۔ (راوی حدیث) مسدد نے ابو عوانہ سے، انہوں نے ابو بشر سے روایت کی کہ اس آدمی کا نام غورث بن حارث اور اس غزوے میں آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4136]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں وضاحت ہے کہ غورث بن حارث نامی دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
اس دوران میں حضرت جبرئیل ؑ نے اس کے سینے پر تھپڑ مارا تو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس تلوار کو اپنے ہاتھ میں لے کرفرمایا:
بتا اب تجھے کون بتاسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ کوئی نہیں بچائے گا۔
آپ نے فرمایا:
جا اور اپنا راستہ لے۔
آپ نے اسے چھوڑدیا اور کچھ نہ کہا۔
جاتے وقت اس نے کہا کہ آپ مجھ سےبہتر ثابت ہوئے ہیں۔

اس قصے سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کافروں سے نرمی کرتے تھے تاکہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
واقدی نے کہا ہے کہ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سے متاثر ہوکرمسلمان ہوگیا اور وہ اپنی قوم میں گیا تو بہت سے لوگ اس کے ہاتھوں مسلمان ہوئے۔
(فتح الباري: 534/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4136