بلوغ المرام
كتاب الزكاة -- زکوٰۃ کے مسائل
1. (أحاديث في الزكاة)
(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 491
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عبد الله بن عمرو رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏من ولي يتيما له مال فليتجر له ولا يتركه حتى تأكله الصدقة» . رواه الترمذي والدارقطني وإسناده ضعيف وله شاهد مرسل عند الشافعي.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی یتیم کا متولی بنے اسے چاہیئے کہ مال یتیم کو تجارت میں لگائے، اسے یوں ہی بیکار پڑا نہ رہنے دے کہ زکوٰۃ ہی اسے کھا جائے۔
اسے ترمذی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے، البتہ امام شافعی کے پاس ایک مرسل روایت اس کی شاہد ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الزكاة، باب ما جاء في زكاة مال اليتيم، حديث:641، وذكر كلامًا، والدار قطني: 2 /109، 110. * المثني ضعيف، وتابعه محمد بن عبيد الله العرزمي وهو متروك، وللحديث طرق ضعيفة منها شاهد مرسل عندالشافعي في الأم: 2 /29 وسنده ضعيف مرسل، ابن جريج عنعن.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 491  
´یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی یتیم کا متولی بنے اسے چاہیئے کہ مال یتیم کو تجارت میں لگائے، اسے یوں ہی بیکار پڑا نہ رہنے دے کہ زکوٰۃ ہی اسے کھا جائے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 491]
لغوی تشریح:
«مَنْ وَلِ» یَ باب «عَلِم يَعْلَمُ» کے وزن پر معروف کا صیغہ ہے۔ معنی یہ ہیں کہ جو شخص والی اور سرپرست بنے۔ اور لام پر تشدید کی صورت میں صیغہ مجہول کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔
«فَلْيَتَّحِر» باب افتعال ہے۔ تجارت سے ماخوذ ہے۔
«وَلَا يَتْرُكْهُ» نہی کا صیغہ ہے، یعنی مال یتیم کو یوں بےکار پڑا نہ رہنے دے۔
«حَتّٰي تَاَكُلَهُ الصَّدَقَةُ» کہ زکاۃ ہی اسے کھا جائے، یعنی سال بہ سال اس پر زکاۃ فرض ہوتی رہے اور آہستہ آہستہ ساری جائیداد اسی کی مد میں ادا ہو جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم کے مال پر زکاۃ واجب ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی شریعت کا مکلّف نہیں ہے۔ اگر واجب نہ ہوتی تو مال یتیم کے ختم ہونے کا اندیشہ کیسے پیدا ہوتا؟ جمہوری کی یہی رائے ہے اور یہی مسلک حق ہے۔

فائدہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو اس کا شاہد بیان کیا ہے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم مذکورہ روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ درست اور راجح ہے، اگرچہ علماء اور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں؟ اس موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ بھی یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالنے کے قائل تھے۔
مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ بچے کے مال میں عدم زکاۃ کا قول ثابت نہیں۔ دیکھیے: [تحفة الاحوذي: 15/2]
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالی جائے اور جمہور علماء کا بھی یہی مسلک ہے۔
احناف، جو یتیم کے مال کی زکاۃ کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں سے صدقتہ الفطر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار میں سے عشر ادا کرنا بھی ضروری ہے، حالانکہ اس تفریق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے کہ یتیم کی زرعی پیدوارا میں سے عشر تو نکالا جائے لیکن اس کے دوسرے مال کو مستشنی کر دیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 491   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 641  
´یتیم کے مال کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا تو فرمایا: جو کسی ایسے یتیم کا ولی (سر پرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تو وہ اسے تجارت میں لگا دے، اسے یونہی نہ چھوڑ دے کہ اسے زکاۃ کھا لے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 641]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہو جائے۔

2؎:
یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثِِ:
صَبِيِِّ،
وَمَجْنُوْنِِ،
وَنَائِمِِ)
)
کے خلاف ہے اور حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ((تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ)) میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔

نوٹ:
(سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں،
اخیر عمر میں مختلط بھی ہو گئے تھے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 641