بلوغ المرام
كتاب الزكاة -- زکوٰۃ کے مسائل
3. باب صدقة التطوع
نفلی صدقے کا بیان
حدیث نمبر: 518
وعن الزبير بن العوام رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏لأن يأخذ أحدكم حبله،‏‏‏‏ فيأتي بحزمة من الحطب على ظهره،‏‏‏‏ فيبيعها،‏‏‏‏ فيكف الله بها وجهه،‏‏‏‏ خير له من أن يسأل الناس،‏‏‏‏ أعطوه أو منعوه» .‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا جنگل سے اپنی پشت پر اٹھا کر لائے پھر اسے فروخت کر دے تو (اللہ تعالیٰ) اس وجہ سے اس کے چہرے کو مانگنے سے روک دیتا ہے۔ یہ (کام) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب الاستعفاف عن المسألة، حديث:1471.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1836  
´سوال کرنا اور مانگنا مکروہ اور ناپسندیدہ کام ہے۔`
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ دیں یا نہ دیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1836]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
بھیک مانگنا اسلام کی نظر میں قابل نفرت چیز ہے۔
اگر آدمی کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو جو معاشرے میں وقار کا حال سمجھا جاتا ہے تو محنت مزدوری کو عار نہیں سمجھنا چاہیے۔
جو چیز کسی کی ملکیت نہ ہو اس میں سے ہر شخص ضرورت کے مطابق لے سکتا ہے۔
جو پیشہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہے اس کے ذریعے سے دیانت داری کے ساتھ کام کرتے ہوئے روزی کمانا بھی عزت کا باعث ہے۔
جو شخص معذوری کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا، اسلامی حکومت یا مسلمان عوام کا فرض ہے کہ اس کی جائز ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1836   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 518  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا جنگل سے اپنی پشت پر اٹھا کر لائے پھر اسے فروخت کر دے تو (اللہ تعالیٰ) اس وجہ سے اس کے چہرے کو مانگنے سے روک دیتا ہے۔ یہ (کام) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 518]
لغوی تشریح 518:
بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ حزمۃ کی حا پر ضمہ اور زا ساکن ہے۔ لکڑیوں کا گٹھا۔
فَیَکُفَّ الْلّٰہَ بِھَا وَجھَہُ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کی عزت وآبرو کو محفوظ رکھتا ہے اور دستِ سوال دراز کرنے کی رسوائی سے باز رکھتا ہے۔

فائدہ 518:
اس حدیث کی رو سے گداگری اور بھیک مانگنا قابلِ مذمت فعل ہے۔ کما کر کھانا اور محنت و مشقت کر کے حاصل کرنا بہتر ہے۔ سوالی اور گداگر کو اگر کچھ مل بھی جائے تو سوال کرنے کی ذلت کیا کچھ کم ہے۔ بھیک مانگنے سے عزت وآبرو نہیں رہتی۔ معاشرے میں وقار کم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی نگاہوں میں ایسے آدمی کا کوئی مقام ومرتبہ نہیں رہتا۔ مفت خوری کی بد عادت ایسے آدمی کو کاہل و سست بنا کر رکھ دیتی ہے۔ معاشرے کی ترقی متأثر ہو جاتی ہے۔ اور ایسا شخص بسا اوقات چوری اور ہیراپھیری جیسی بری عادات کا خوگر بن کر رہ جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 518