صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
35. بَابُ حَدِيثُ الإِفْكِ:
باب: واقعہ افک کا بیان۔
حدیث نمبر: 4143
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ حُصَيْنٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا قَاعِدَةٌ أَنَا وَعَائِشَةُ إِذْ وَلَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَتْ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ , فَقَالَتْ أُمُّ رُومَانَ: وَمَا ذَاكَ قَالَتِ ابْنِي فِيمَنْ حَدَّثَ الْحَدِيثَ قَالَتْ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَتْ: كَذَا وَكَذَا , قَالَتْ عَائِشَةُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَتْ: وَأَبُو بَكْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ , فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ , فَطَرَحْتُ عَلَيْهَا ثِيَابَهَا فَغَطَّيْتُهَا , فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" مَا شَأْنُ هَذِهِ؟" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى بِنَافِضٍ , قَالَ:" فَلَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ" , قَالَتْ: نَعَمْ , فَقَعَدَتْ عَائِشَةُ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لَا تُصَدِّقُونِي , وَلَئِنْ قُلْتُ لَا تَعْذِرُونِي مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ , قَالَتْ: وَانْصَرَفَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عُذْرَهَا , قَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ لَا بِحَمْدِ أَحَدٍ وَلَا بِحَمْدِكَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے ابووائل شقیق بن سلمہ نے بیان کیا ‘ ان سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ‘ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ فلاں، فلاں کو تباہ کرے۔ ام رومان نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے۔ جنہوں نے اس طرح کی بات کی ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ اس پر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں نقل کر دیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ باتیں سنیں ہیں؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ‘ انہوں نے بھی۔ یہ سنتے ہی وہ غش کھا کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر ان کے کپڑے ڈال دیئے اور اچھی طرح ڈھک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جاڑے کے ساتھ بخار چڑھ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً اس نے اس طوفان کی بات سن لی ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیٹھ کر کہا کہ اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں کہ میں بےگناہ ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر کچھ کہوں تب بھی میرا عذر نہیں سنیں گے۔ میری اور آپ لوگوں کی یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی مثال ہے کہ انہوں نے کہا تھا «والله المستعان على ما تصفون» یعنی اللہ ان باتوں پر جو تم بناتے ہو مدد کرنے والا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ تقریر سن کر لوٹ گئے ‘ کچھ جواب نہیں دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تلافی نازل کی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں بس میں اللہ ہی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ آپ کا نہ کسی اور کا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3388  
´بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں`
«. . .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِمَ؟ . . .»
. . .ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3388]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ}
ترجمۃ الباب میں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں واضح طور پر یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اشارۃً ان کا ذکر ہے، علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«حديث ام رومان اورده هنا القول عائشة فيه: فمثلي ومثلك كمثل يعقوب وبنيه، فان يوسف داخل فيهم .»
یعنی امام رومان رضی اللہ عنہا کی حدیث کا باب سے تعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے کہ میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، پس ان کے بیٹوں میں یوسف علیہ السلام داخل ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں، مجھے یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہیں آیا تو میں نے یوسف علیہ السلام کے والد کہہ دیا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک اشکال مذکورہ حدیث کی سند پر لگایا ہے، کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «مسروق عن ام رومان» کہ واسطے سے جو حدیث الافک روایت کی ہے، اس کو مسروق نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، کیوں کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں انتقال فرما گئی تھیں، اور اس وقت مسروق چھ سال کے تھے، اس لئے مسروق کی روایت ام رومان رضی اللہ عنہا سے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس یہ علت روایت میں موجود ہے،
خطیب صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:
«وخفيت هذه العلة على البخاري رحمه الله .»
پس یہ علت اس میں موجود ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ پر مخفی رہی۔
اس تنقید کہ ہم پیالہ کئی متاخرین کی جماعت بنی، لیکن اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف کمزور ہے، بلکہ صحیح بات ان سے مخفی رہی، نہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے قائل تھے، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خطیب رحمہ اللہ کا واضح طور پر رد فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
جس روایت سے ام رومان کا ۶ ھ میں انتقال ثابت کیا جاتا ہے، اس میں ایک سیئی الحفظ راوی زید بن جدعان ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الصغیر اور تاریخ الاوسط میں اس کی نقل کردہ روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور «فيه نظر» فرما کر اس کا رد فرما دیا۔
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محدث ابراہیم حربی رحمہ اللہ کا قول بھی نقل فرمایا ہے تاکہ مسروق اور ام رومان رضی اللہ عنہا کے انقطاع کا خدشہ دور ہو جائے اور ان کی لقاء و سماع ثابت ہو جائے۔
«وقد جزم ابراهيم الحربي الحافظ باٴن مسروقآ انما سمع من ام رومان فى خلافة عمر رضي الله عنه»
یقیناًً ابراہیم حربی نے جزم کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ مسروق نے ام رومان سے خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سماعت فرمایا ہے۔
لہٰذا امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بھی یہاں بآسانی رد ہوتا ہے کیونکہ آپ بھی خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے ہم پیالہ تھے، اس مسئلے میں امام ابونعیم الاصفھانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو یہ کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ انتقال کر گئی تھیں، تو اسے وہم ہو گیا ہے۔
«عاشت ام رومان بعد نبي صلى الله عليه وسلم دهرا»
یعنی ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی سال زندہ رہیں۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ، ام رومان رضی اللہ عنہا کا سماع امام مسروق رحمہ اللہ سے ثابت ہے، لہٰذا خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا اعتراض کالعدم ٹھرا، مزید تفصیل کے لئے مراجعت کیجئے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح لابن الملقن: 19 / 38۔ 439]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 27   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4143  
4143. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے خبر دی کہ ایک دفعہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی کہ اللہ فلاں کو ایسا ایسا کرے۔ ام رومان نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے جنہوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ ام رومان‬ ؓ ن‬ے پوچھا: وہ کیا باتیں ہیں؟ تو انہوں نے واقعہ بہتان ذکر کیا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پوچھا: کیا حضرت ابوبکر ؓ نے بھی سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ یہ سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ جب انہین ہوش آیا تو انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4143]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بقول واقدی حضرت ام رومان ؓ کا انتقال چار یا پانچ ہجری میں ہو چکا تھا اور حضرت مسروق صحابی نہیں ہیں کیونکہ وہ یمن سے آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ یا حضرت عمر ؓ کےکے دور خلافت میں آئے لہٰذا اس روایت میں انقطاع ہے۔
لیکن واقدی کا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ احادیث میں اس کی تردید موجود ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت تخبیر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرتا ہوں اپنے والدین حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔
(مسند أحمد: 212/5)
اور آیت تخبیرنو ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ہجری تک حضرت اُم رومان ؓ کا زندہ رہنا احادیث سے ثابت ہے نیز صحیح بخاری کی روایت بھی قول واقدی کے معارض ہے۔

ابراہیم حربی نے یقین سے کہا ہے کہ مسروق کا سماع اُم رومان ؓ سے ثابت ہے اور وہ سماع کے وقت پندرہ برس کے تھے، اس کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی نے کہا:
اُم رومان ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زندہ ہیں لہٰذا مذکورہ روایت متصل اور صحیح ہے۔
(فتح الباري: 546/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4143