صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
35. بَابُ حَدِيثُ الإِفْكِ:
باب: واقعہ افک کا بیان۔
حدیث نمبر: 4146
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ أَبِي الضُّحَى , عَنْ مَسْرُوقٍ , قَالَ:" دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَعِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ وَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ , قَالَ مَسْرُوقٌ: فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْكِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النور آية 11 فَقَالَتْ: وَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى , قَالَتْ لَهُ: إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ أَوْ يُهَاجِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا ‘ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں سلیمان نے ‘ انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے یہاں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود تھے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو اپنے اشعار سنا رہے تھے۔ ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ وہ سنجیدہ اور پاک دامن ہیں جس پر کبھی تہمت نہیں لگائی گئی ‘ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر نادان بہنوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرما چکا ہے «والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم‏» اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہو گا۔ اس پر ام المؤمنین نے فرمایا کہ نابینا ہو جانے سے سخت عذاب اور کیا ہو گا (حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4146  
4146. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4146]
حدیث حاشیہ:
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جیسا کہ معلوم ہے۔
حضرت عائشہ ؓ حسان ؓ کی شان میں کسی برے کلمہ کو گوارا نہیں کرتی تھیں۔
حسان ؓ سے تہمت کی غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن جن صحابہ ؓ نے بھی اس میں غلطی سے شرکت کی تھی وہ سب تائب ہو گئے تھے اور ان کی توبہ قبول ہو گئی تھی۔
اور بہر حال حضرت عائشہ ؓ کا دل غلطی سے شریک ہونے والے صحابہ ؓ کی طرف سے صاف ہو گیا تھا لیکن جب اس طرح کا ذکر آجا تا تو دل کارنجیدہ ہوجانا ایک قدرتی بات تھی۔
یہاں بھی حضرت عائشہ ؓ نے دو ایک چبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر میں حضرت حسان ؓ سے متعلق کہہ دیئے ہیں۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَفِي تَرْجَمَةِ الزُّهْرِيِّ عَنْ حِلْيَةِ أَبِي نُعَيْمٍ من طَرِيق بن عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ كُنْتُ عِنْدَ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُم لَهُ عَذَاب عَظِيم فَقَالَ نَزَلَتْ فِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَصْلَحَ اللَّهُ الْأَمِيرَ لَيْسَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ وَكَيْفَ أَخْبَرَكَ قُلْتُ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ بن أبي۔
۔
۔
۔
۔
وَكَأَنَّ بَعْضَ مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ مِنَ النَّاصِبَةِ تَقَرَّبَ إِلَى بَنِي أُمَيَّةَ بِهَذِهِ الْكِذْبَةِ فَحَرَّفُوا قَوْلَ عَائِشَةَ إِلَى غَيْرِ وَجْهِهِ لِعِلْمِهِمْ بِانْحِرَافِهِمْ عَنْ عَلِيٍّ فَظَنُّوا صِحَّتَهَا حَتَّى بَيَّنَ الزُّهْرِيُّ لِلْوَلِيدِ أَنَّ الْحَقَّ خِلَافُ ذَلِكَ فَجَزَاهُ اللَّهُ تَعَالَى خَيْرًا وَقَدْ جَاءَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ هِشَامَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ كَانَ يَعْتَقِدُ ذَلِكَ أَيْضًا فَأَخْرَجَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي مُسْنَدِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ قَالَ حَدثنَا عَمِّي قَالَ دَخَلَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَقَالَ لَهُ يَا سُلَيْمَانُ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مَنْ هُوَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ قَالَ كَذَبْتَ هُوَ عَلِيٌّ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَدخل الزُّهْرِيّ فَقَالَ يَا بن شهَاب من الَّذِي تولى كبره قَالَ بن أُبَيٍّ فَقَالَ أَنَا أكذب لَا أبالك وَاللَّهِ لَوْ نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ اللَّهَ أَحَلَّ الْكَذِبَ مَا كَذَبْتُ قال الکرمانی واعلم أن براءة عائشة قطعیة بنص القرآن ولو شك فیھا أحد صار کافرا انتھی وزاد في خیر الجاري وهو مذهب ٓ رحمه اللہ الشیعة الإمامیة مع بغضھم بھا انتھی۔
(فتح الباری) (خلاصہ یہ ہے کہ آیت ﴿والَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ﴾ سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے حضرت علی ؓ مراد نہیں ہیں)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4146   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4146  
4146. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت ؓ ان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے، انہوں نے یہ شعر کہے: آپ پاک دامن باوقار ہیں، انہیں شک و شبہ سے متہم نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر صبح بھوکی ہو کر بھالی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: لیکن تم تو ایسے ثابت نہیں ہوئے۔ حضرت مسروق نے کہا: آپ انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت کیوں دیتیں ہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ان میں سے جو شخص بہتان کا سرغنہ بنا اسے عذاب عظیم ہو گا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: اس سے سخت عذب اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا میں اندھا ہو گیا؟ اس کے باوجود حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے مسروق سے کہا: حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور دفاع کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4146]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ آیت کریمہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے متعلق ہے جیسا کہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4749)
اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ نے بطور فرض وتسلیم حسان بن ثابت ؓ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ انھیں دنیا میں سزادے دی ہے شاید دوسری مرتبہ ان کو سزا نہ دی جائے۔
اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ حضرت حسان ؓ کی شان میں کسی بُرے کلمے کو گوارا نہیں کرتی تھی۔
ان سے تہمت لگانے میں غلطی ضرور ہوئی تھی لیکن انھوں نے توبہ کرلی اور اس کی سزا قبول کرلی۔
حضرت عائشہ ؓ کا دل ان کی طرف سے صاف ہوگیا تھا لیکن جب کبھی اس طرح کا ذکر آجاتا تو دل کا رنجیدہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، اس بنا پر روایت میں ایک دوچبھتے ہوئے جملے غالباً اسی اثر کا نتیجہ ہیں۔

بہرحال حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک بطور تنصیص آیت کا مصداق عبداللہ بن ابی منافق ہے اور اس حدیث میں بطور فرض وتسلیم ہے تاکہ تنصیص کی خلاف ورزی نہ ہو۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4146