بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
1. باب فضله وبيان من فرض عليه
حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان
حدیث نمبر: 579
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرہ دوسرے عمرے تک دونوں کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‏‏‏‏ (مسلم و بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العمرة، باب وجوب العمرة وفضلها، حديث:1773، ومسلم، الحج، باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، حديث:1349.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2888  
´حج اور عمرہ کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2888]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں ہر قسم کی لڑائی جھگڑے اور گناہوں سے پر ہیز کی پوری کوشش کی جائے اس لیے اس لفظ کا ترجمہ مقبول حج بھی کیا جاتا ہے۔

(2)
عمرے سے گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

(3)
احادیث میں بہت سی نیکیوں کے بارے میں مذکور ہے کہ ان سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
لیکن اس کا دارومدار نیکیوں کو سنت کے مطابق ادا کرنے اور خلوص قلب پر ہے۔
علاوہ ازیں بعض اوقات نیکی میں ایسی کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے ثواب میں بہت کمی ہوجاتی ہے۔
ایسی نیکی اتنے گناہوں کی معافی کا باعث نہیں بن سکتی جتنے گناہ صحیح نیکی سے معاف ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2888   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 579  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرہ دوسرے عمرے تک دونوں کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‏‏‏‏ (مسلم و بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 579]
579 لغوی تشریح:
«كِتَابُ الْحَجْ» حا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں، جس کے لغوی معنی ہیں: قصد کرنا۔ لغت کے امام خلیل نے کہا ہے کہ اس کے معنی محترم مقام کی طرف کثرت سے قصد کرنا ہے۔ اور اصطلاح شریعت میں مسجدالحرام کی طرف مخصوص اعمال سے قصد کرنا ہے۔ حج بالاتفاق اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک اس کی فرضیت سن چھ ہجری میں ہوئی جبکہ بعض نے نو یا دس ہجری کہا ہے۔ زاد المعاد میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
«اَلْعُمرَةُ» لغت میں عمرہ کے معنی زیارت کے ہیں اور اور بعض نے اس کے معنی قصد و ارادہ کے کیے ہیں۔ اور اصطلاح شریعت میں اسے مراد احرام، طواف، سعی صفا و مروہ، سر منڈوانا یا بال کٹوانا ہے۔ اسے عمرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں مذکورہ اعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیت اللہ کا قصد کیا جاتا ہے۔ [سبل السلام]
«اَلَجْ الْمَبْرُورُ» اس سے مراد وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ حج مبرور وہ ہے جس کے بعد حج کرنے والے کی دینی و اخلاقی حیثیت پہلے سے بہتر ہو جائے۔ اور بعض نے اس کے معنی حج مقبول کے کیے ہیں اور یہ سب اقوال باہم قریب قریب ہیں، ان میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 579   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 933  
´عمرہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 933]
اردو حاشہ: 1؎:
مرادصغائر(چھوٹے گناہ) ہیں نہ کہ کبائر(بڑے گناہ)کیونکہ کبائربغیرتوبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ 2؎:
حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 933