بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
1. باب فضله وبيان من فرض عليه
حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان
حدیث نمبر: 581
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: أتى النبي صلى الله عليه وآله وسلم أعرابي فقال: يا رسول الله أخبرني عن العمرة أواجبة هي؟ فقال: «‏‏‏‏لا،‏‏‏‏ وأن تعتمر خير لك» .‏‏‏‏ رواه أحمد والترمذي والراجح وقفه وأخرجه ابن عدي من وجه آخر ضعيف عن جابر مرفوعا:«‏‏‏‏الحج والعمرة فريضتان» .
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی حاضر ہوا تو اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے عمرہ کے بارے بتلائیے کہ کیا یہ واجب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر تو عمرہ کرے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اسے احمد و ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کا موقوف ہونا راجح ہے اور امام ابن عدی نے ایک اور ضعیف سند سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الحج، باب ما جاء في العمرة أواجبة هي أم لا، حديث:931، وقال: "حسن صحيح"، وأحمد:3 /316. * حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس، وحديث جابر أخرجه ابن عدي في الكامل:4 /1468 وسنده ضعيف، ابن لهيعةعنعن.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 581  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی حاضر ہوا تو اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! مجھے عمرہ کے بارے بتلائیے کہ کیا یہ واجب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر تو عمرہ کرے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اسے احمد و ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کا موقوف ہونا راجح ہے اور امام ابن عدی نے ایک اور ضعیف سند سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 581]
581 لغوی تشریح:
«وَالرَّاجِحُ وَقْفُهُ» راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ انہی سے ایک بدو نے سوال کیا اور انہوں نے اسے یہ جواب دیا۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ [سبل السلام]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت راوی کا وہم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی سند بھی ضعیف اور ناقابل استدلال ہے جس کی تفصیل تحفتہ الاحوذی (ج2، ص113) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
«مِنْ وَجْهٍ آخَرَ ضِعِفٍ» ایک اور ضعیف سند سے مروی ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن لہیعہ عن عطاء عن جابر کی سند سے مروی ہے، اور ابن لہیعہ اس میں کمزور ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ عطاء سے غیر محفوظ ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے یہی روایت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے مگر اس میں اسماعیل بن مسلم المکی ضعیف ہے اور ابن سیرین کا حضرت زید رضی اللہ عنہ سے سماع بھی نہیں ہے۔ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ایک اور سند سے ابن سیرین سے موقوف روایت کیا ہے اس کی سند پہلی سے زیادہ صحیح ہے۔ [سبل السلام]
عمرے کے متعلق دلائل کے اختلاف کی وجہ سے اس کے وجوب اور عدم وجوب کے بارے میں اختلاف ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ یہ واجب ہے۔ حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم، امام شافعی، امام احمد اور امام بخاری رحمها اللہ وغیرہ اس کے قائل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 581   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 931  
´کیا عمرہ واجب ہے یا واجب نہیں ہے؟`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا: کیا یہ واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 931]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے حنفیہ اورمالکیہ نے اس با ت پر استدلال کیا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے،
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے لائق استدلال نہیں۔
نوٹ:

(سند حجاج بن ارطاۃ کثیرالارسال والتدلیس ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 931