بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
1. باب فضله وبيان من فرض عليه
حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان
حدیث نمبر: 589
وعنه رضي الله عنه قال: خطبنا رسول صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «‏‏‏‏إن الله كتب عليكم الحج» ‏‏‏‏ فقام الأقرع بن حابس فقال: أفي كل عام يا رسول الله؟ قال: «‏‏‏‏لو قلتها لوجبت الحج مرة فما زاد فهو تطوع» .‏‏‏‏ رواه الخمسة غير الترمذي وأصله في مسلم من حديث أبي هريرة.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ اس پر اقرع بن حابس کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کیا ہر سال، اے اللہ کے رسول!؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو یہ (ہر سال کے لیے) فرض ہو جاتا۔ حج ایک بار ہے اور اس سے جو زائد ہے وہ نفل ہے۔ اسے ترمذی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب فرض الحج، حديث:1721، والنسائي، مناسك الحج، حديث:2621، وابن ماجه، المناسك، حديث:2886، وأحمد:1 /371، وأصله في مسلم، الحج، حديث:1337 من حديث أبي هريرة.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 589  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ اس پر اقرع بن حابس کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کیا ہر سال، اے اللہ کے رسول!؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو یہ (ہر سال کے لیے) فرض ہو جاتا۔ حج ایک بار ہے اور اس سے جو زائد ہے وہ نفل ہے۔ اسے ترمذی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 589]
589 فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث دلیل ہے کہ حج عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے، اس سے زائد نفل ہے۔
➋ اس روایت میں جو یہ مذکور ہے کہ اگر میں ہر سال حج فرض ہونے کا کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا، اس سے بعض علماء کا خیال ہے کہ احکام شرعیہ کا تقرر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مرضی سے کر سکتے تھے لیکن اکثر علماء اس قول کو درست نہیں سمجھتے اور یہی موقف درست ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی حکم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا پر ہی موقوف ہوتا تھا۔ اس اصولی اختلاف کی تفصیل اصول و عقائد کی کتابوں میں موجود ہے جس کا یہاں ذکر کرنا غیر ضروری ہے۔

وضاحت:
حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ، یہ قبیلہ تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بنوتمیم کا جو وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اس میں شامل تھے۔ مؤلفۃ القلوب میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جاہلیت اور اسلام میں اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 589