بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
5. باب صفة الحج ودخول مكة
حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان
حدیث نمبر: 624
وعن عروة بن مضرس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من شهد صلاتنا هذه يعني بالمزدلفة فوقف معنا حتى ندفع وقد وقف بعرفة قبل ذلك ليلا أو نهارا فقد تم حجه وقضى تفثه» .‏‏‏‏ رواه الخمسة وصححه الترمذي وابن خزيمة.
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی مزدلفہ میں ہماری نماز میں شامل ہوا اور ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم نے کوچ کیا اور اس سے قبل عرفات میں رات یا دن میں قیام کر چکا ہو تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنی میل کچیل اتار لی۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب من لم يدرك عرفة، حديث:1950، والترمذي، الحج، حديث:891، والنسائي، مناسك الحج، حديث:3042، وابن ماجه، المناسك، حديث:3016، وأحمد:4 /261، وابن خزيمة:4 /256، وابن حبان(الإحسان):6 /61، حديث:3839، 3840، والحاكم:1 /463 وصححه، ووافقه الذهبي.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3016  
´مزدلفہ کی رات میں فجر سے پہلے عرفات آنے کا بیان۔`
عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حج کیا، تو اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی اونٹنی کو لاغر کر دیا اور اپنے آپ کو تھکا ڈالا، اور قسم اللہ کی! میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہیں چھوڑا، جس پر نہ ٹھہرا ہوں، تو کیا میرا حج ہو گیا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے ساتھ نماز میں حاضر رہا ہو، اور عرفات میں ٹھہر کر دن یا رات میں لوٹے، تو اس نے اپنا میل کچی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3016]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس نے میل کچیل دور کرلیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طواف وغیرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے اور حجامت بنواکر نہا دھو کر کپڑے پہن سکتا ہے۔

(2)
حج کی ادائیگی کے لیے مقرر وقت میں عرفات کی حاضری ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3016   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 624  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی مزدلفہ میں ہماری نماز میں شامل ہوا اور ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم نے کوچ کیا اور اس سے قبل عرفات میں رات یا دن میں قیام کر چکا ہو تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنی میل کچیل اتار لی۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 624]
624 لغوی تشریح: «من شهد صلاتنا هذه» جس نماز (فجر) کے لیے اب ہم نکلے ہیں اس میں جو حاضر ہو گیا۔
«ليلا او نهار» اس میں ایک فقہی مسئلہ بیان ہوا ہے کہ عرفہ کے روز زوال آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذوالحجہ کی صبح تک جو عرفات میں کسی بھی لمحے قیام پذیر رہا اس نے حج پا لیا جیسا کہ امام خطابی نے کہا ہے: «فقدتم حجة» اس نے حج کو پورا کر لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حج کا بڑا حصہ مکمل کر لیا۔ اس سے عرفات کا وقوف مراد ہے کیونکہ اسی کے فوت ہونے کا خوف اور اندیشہ ہوتا ہے جس کے بغیر حج کا بڑا حصہ نا مکمل رہتا ہے۔
«وقضىٰ تفثه» اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا، یعنی اس نے اپنے مناسک حج ادا کر لیے۔ «تفث» ان کاموں کو کہتے ہیں جنہیں محرم سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے کے بعد حلال ہونے کے موقع پر کرتا ہے۔ اس میں اونٹوں کی قربانی اور دیگر سارے مناسک حج کی ادائیگی بھی شامل ہے کیونکہ «تفث» تو اس کے بعد ہی پورا ہوتا ہے۔ اصل میں «تفث» میل کچیل کو کہتے ہیں۔ اس حدیث کے شروع کا حصہ یوں ہے کہ حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مزدلفہ میں اس وقت پہنچا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں طے کے دو پہاڑوں سے آ رہا ہوں۔ میں نے اپنی سواری کو (دوڑا دوڑا کر) تھکا دیا ہے اور اپنے نفس کو مشقت میں مبتلا کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی ٹیلا (پہاڑ) ایسا نہیں چھوڑا کہ جس پر وقوف نہ کیا ہو۔ (سب ٹیلوں پر وقوف کیا ہے۔) تو کیا میرا حج ہو گیا؟ پھر مذکورہ بالا ساری حدیث ذکر کی۔

فوائد و مسائل:
اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے مناسک حج پورے کر لیے، اب وہ مابعد کے دیگر اعمال حج، یعنی طواف وغیرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے اور حجامت بنوا کر نہا دھو کر کپڑے پہن سکتا ہے۔
➋ حج کی ادائیگی کے لیے مقررہ وقت میں عرفات کی حاضری ضروری ہے۔ اسے ہی وقوف عرفہ کہا جاتا ہے۔

راوی حدیث: حضرت عروہ بن مضرس، میم پر ضمہ ضاد پر فتحہ اور را مشدد کے نیچے زیر ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام طائی۔ مشہور صحابی ہیں۔ حجۃ الوداع میں شامل ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کر لی۔ ان سے دس احادیث مروی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 624