بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
5. باب صفة الحج ودخول مكة
حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان
حدیث نمبر: 635
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه استأذن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يبيت بمكة ليالي منى من أجل سقايته فأذن له.متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ منٰی والی راتیں مکہ میں کاٹیں تاکہ وہ آب زمزم پلا سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دیدے دی۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب سقاية الحاج، حديث:1634، ومسلم، الحج، باب وجوب المبيت بمني ليالي أيام التشريق، حديث:1315.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3065  
´منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی، کیونکہ زمزم کے پلانے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3065]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مکہ مکرمہ میں قریش کی مختلف شاخوں کو مختلف مناصب حاصل تھے۔
رسول اللہﷺ کے اجداد میں سے قصی بن کلاب کو جو مناصب حاصل تھےوہ انھوں نے اپنے بیٹوں میں تقسیم کیےپھر وہ منصب ان کی اولاد میں تقسیم ہوئے تو سقایت (حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب)
بنو عبد مناف کو اور حجابت (کعبہ کی خدمت اور کلید برادری)
بنو عبد الدار کو ملی۔
رسول اللہ ﷺ کے حج کے موقع پر سقایت کا یہ منصب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا۔ (الرحيق المختومص: 53)

(2)
منی کے ایام سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔
جن میں حاجی منی میں رہتے ہیں۔
ان ایام کی راتیں بھی منی میں گزارنی چاہییںا لبتہ حاجیوں کی خدمت کے سلسلے میں خدام مکہ مکرمہ میں بھی رہ سکتے ہیں۔ (3)
حاجیوں کی خدمت ایک بڑا شرف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3065   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 635  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ منٰی والی راتیں مکہ میں کاٹیں تاکہ وہ آب زمزم پلا سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دیدے دی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 635]
635لغوی تشریح: «ليالي منيٰ» منیٰ کی راتوں سے مراد ذوالحجہ کی گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں راتیں ہیں۔ یہ اجازت انہوں نے اس مقصد اور غرض کے لیے طلب کی کہ وہ اور ان کے ساتھی رات کو آب زمزم کھینچ کر حوض بھر لیتے تھے اور فی سبیل اللہ لوگوں کو پلاتے تھے۔
«فاذن له» یہ اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ معذور نہ ہوں ان کے لیے منیٰ ہی میں یہ راتیں گزارنا واجب ہے اور جنہیں کوئی عذر پیش آ جائے، مثلاً: منیٰ میں خیمے میں آگ بھڑک اٹھے اور طویل رات گزارنا ناممکن و مشکل نظر آئے تو وہاں رات گزارنا ضروری نہیں اور اسی طرح تیسری رات بھی وہاں گزارنا واجب نہیں کیونکہ جو شخص جلدی کر کے دو دن ہی منیٰ میں رہ کر چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 635   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1959  
´منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1959]
1959. اردو حاشیہ: کوئی معقول شرعی عذر ہوتو معنی سےباہر رہ سکتا ہے، مثلاً حجاج کی خدمت، جانوروں کو چرانا یا مریض اور اس کی تیمارداری وغیرہ۔ اس قسم کے اعذار کے علاوہ منی ٰ میں رات گزارنا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1959