بلوغ المرام
كتاب الحج -- حج کے مسائل
6. باب الفوات والإحصار
حج سے محروم رہ جانے اور روکے جانے کا بیان
حدیث نمبر: 646
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: دخل النبي صلى الله عليه وآله وسلم على ضباعة بنت الزبير بن عبد المطلب رضي الله عنها،‏‏‏‏ فقالت: يا رسول الله! إني أريد الحج،‏‏‏‏ وأنا شاكية؟ فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏حجي واشترطي أن محلي حيث حبستني» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ حج کر مگر یہ شرط کر لے کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روکا۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، النكاح، باب الأكفاء في الدين، حديث:5089، ومسلم، الحج، باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض، حديث:1207.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 646  
´حج سے محروم رہ جانے اور روکے جانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ حج کر مگر یہ شرط کر لے کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روکا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 646]
646لغوی تشریح:
«‏‏‏‏شاكيه» بیمار۔
«محلي» ‏‏‏‏ میم پر فتحہ اور حا کے نیچے کسرہ ہے، یعنی حج سے خروج کا مکان اور احرام کھول کر میرے حلال ہو جانے کی جگہ۔ مقصود اس سے وقت اور مقام دونوں کا بیان ہے۔ اور یہ ظرف زمان اور ظرف مکان دونوں کے معنی دے رہا ہے۔
«‏‏‏‏حبستني» صیغئہ مخاطب، یعنی اے اللہ! جہاں تو مجھے روک لے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام میں شرط لگانا صحیح ہے۔ شرط لگانے والے کو جب کوئی مانع پیش ہو جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ کرنا لازم نہیں۔

وضاحت:
حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہما، ان کی کنیت ام حکیم ہے۔ ضباعہ کے 'ضاد پر ضمہ ہے۔ نسب نامہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچازاد بہن ہیں۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں اور ان کے دو بچے عبداللہ اور کریمہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فوت ہوئیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 646