بلوغ المرام
كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے مسائل
5. باب السلم والقرض، والرهن.
پیشگی ادائیگی، قرض اور رھن کا بیان
حدیث نمبر: 726
وعن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏كل قرض جر منفعة فهو ربا» .‏‏‏‏رواه الحارث بن أبي أسامة وإسناده ساقط. وله شاهد ضعيف عن فضالة بن عبيد عند البيهقي،‏‏‏‏ وآخر موقوف عن عبد الله بن سلام عند البخاري.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ قرض جو منافع کھینچ لائے پس وہ سود ہے۔ اسے حارث بن ابی اسامہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ساقط الاعتبار (ضعیف ہے) اور اس کا کمزور شاہد بیہقی کے ہاں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اور بخاری میں ایک اور موقوف حدیث عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الحارث بن أبي أسامة في مسنده و بغية الباحث:2437، والمطالب العالية:1 /411، حديث:1373 وفيه سوار بن مصعب متروك الحديث، وحديث فضالة أخرجه البيهقي:5 /350، وقال: "موقوف"، قلت: وسنده صحيح، وحديث عبدالله بن سلام أخرجه البخاري، مناقب الأنصار، حديث:3814.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 726  
´پیشگی ادائیگی، قرض اور رھن کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ قرض جو منافع کھینچ لائے پس وہ سود ہے۔ اسے حارث بن ابی اسامہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ساقط الاعتبار (ضعیف ہے) اور اس کا کمزور شاہد بیہقی کے ہاں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اور بخاری میں ایک اور موقوف حدیث عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 726»
تخریج:
«أخرجه الحارث بن أبي أسامة في مسنده و بغية الباحث:2437، والمطالب العالية:1 /411، حديث:1373 وفيه سوار بن مصعب متروك الحديث، وحديث فضالة أخرجه البيهقي:5 /350، وقال: "موقوف"، قلت: وسنده صحيح، وحديث عبدالله بن سلام أخرجه البخاري، مناقب الأنصار، حديث:3814.»
تشریح:
مذکورہ روایت مرفوع سند سے ضعیف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کے شواہد جو کہ موقوف ہیں‘ کثرت سے ہیں جیسا کہ مصنف نے بھی روایت کے آخر میں ان کا ذکر کیا ہے۔
علاوہ ازیں حضرت ابن مسعود‘ حضرت ابی بن کعب اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مسئلہ موقوفاً ثابت ہے‘ نیز علمائے کرام کا بھی حدیث میں مذکور مسئلے کے صحیح ہونے پر اجماع ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (توضیح الأحکام من بلوغ المرام:۴ /۴۷۱. ۴۷۷)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 726