بلوغ المرام
كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے مسائل
13. باب الشفعة
شفعہ کا بیان
حدیث نمبر: 762
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏جار الدار أحق بالدار» .‏‏‏‏رواه النسائي وصححه ابن حبان وله علة.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکان کا ہمسایہ اس مکان کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں علت ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الشفعة، حديث:3517، والترمذي، الأحكام، حديث:1368، والنسائي: لم أجده، وابن حبان (الإحسان):7 /309، حديث:5159.»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3517  
´شفعہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر کا پڑوسی پڑوسی کے گھر اور زمین کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3517]
فوائد ومسائل:

شفعہ شفع سے ماخوز ہے اور لغت میں اس کے معنی جوڑا ہونا۔
اضافہ کرنا۔
اوراعانت کرنا آتے ہیں۔
شرعاً یہ ہے کہ ''مشترک یا ملحق زمین ومکان کو فروخت کرتے وقت شریک ساتھی کو جو حق خریداری کا اولین حق رکھتا تھا۔
بتائے بغیر کسی اور کو منتقل کردیا گیا ہو۔
تو اسے واپس لوٹانا۔
شفعہ کہلاتا ہے۔
بشرط یہ ہے کہ قیمت وہی ہو جو اجنبی نے دی ہو۔


حدیث۔
1516۔
3515۔
میں ہمسائے سے مراد شریک ہے۔
جیسا کہ متعدد روایات میں صراحت ہے۔
اسی کی تایئد حدیث 3518 سے بھی ہوتی ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ جس ہمسائے کا راستہ ایک ہو وہی ہمسایہ شفعہ کا حقدار ہوگا۔
اگر راستہ مشترک نہ ہو۔
بلکہ الگ الگ ہو ایک دوسرے کی حدود متعین ہوں تو پھر محض ہمسایہ ہونے کی بنا پردہ شفعہ کا حق دار نہیں ہوگا۔
شفعہ کا حق دارصرف وہی ہوگا جو زمین یا باغ میں شریک ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3517