بلوغ المرام
كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے مسائل
15. باب المساقاة والإجارة
آبپاشی اور زمین کو ٹھیکہ پر دینے کا بیان
حدیث نمبر: 768
عن حنظلة بن قيس رضي الله عنه قال: سألت رافع بن خديج عن كراء الأرض بالذهب والفضة؟ فقال: لا بأس به إنما كان الناس يؤاجرون على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على الماذيانات وأقبال الجداول وأشياء من الزرع فيهلك هذا ويسلم هذا ويسلم هذا ويهلك هذا ولم يكن للناس كراء إلا هذا فلذلك زجر عنه فأما شيء معلوم مضمون فلا بأس به. رواه مسلم. وفيه بيان لما أجمل في المتفق عليه من إطلاق النهي عن كراء الأرض.
سیدنا حنظلہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سونے اور چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ اپنی زمین اس شرط پر دیا کرتے تھے کہ جو کچھ پانی کی نالیوں اور پانی کے بہاؤ میں پیدا ہو گا اور کچھ حصہ باقی کھیتی کا وہ تو میں لوں گا۔ پھر کبھی ایسا ہوتا یہ حصہ تباہ و برباد ہو جاتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اس حصہ میں کچھ پیداوار ہی نہ ہوتی اور لوگوں کو ٹھیکہ اسی صورت میں حاصل ہوتا تھا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا۔ پس اگر کوئی چیز مقرر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مسلم) اور اس میں اس کا بھی بیان ہے جسے بخاری و مسلم نے مجمل بیان کیا ہے کہ زمین ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البيوع، باب كراء الأرض بالذهب والورق، حديث:1547.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 768  
´آبپاشی اور زمین کو ٹھیکہ پر دینے کا بیان`
سیدنا حنظلہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سونے اور چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ اپنی زمین اس شرط پر دیا کرتے تھے کہ جو کچھ پانی کی نالیوں اور پانی کے بہاؤ میں پیدا ہو گا اور کچھ حصہ باقی کھیتی کا وہ تو میں لوں گا۔ پھر کبھی ایسا ہوتا یہ حصہ تباہ و برباد ہو جاتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اس حصہ میں کچھ پیداوار ہی نہ ہوتی اور لوگوں کو ٹھیکہ اسی صورت میں حاصل ہوتا تھا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا۔ پس اگر کوئی چیز مقرر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مسلم) اور اس میں اس کا بھی بیان ہے جسے بخاری و مسلم نے مجمل بیان کیا ہے کہ زمین ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 768»
تخریج:
«أخرجه مسلم، البيوع، باب كراء الأرض بالذهب والورق، حديث:1547.»
تشریح:
یہ حدیث مساقات و مزارعت کی جس صورت کو ممنوع قرار دے رہی ہے وہ نامعلوم پیداوار اور اس کی مقدار ہے۔
لوگ فاسد شرطیں طے کیا کرتے تھے۔
ان سے منع کیا گیا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ ندیوں‘ نالوں اور پگڈنڈیوں کے گرد ہونے والی پیداوار سالم رہ جاتی اور باقی ساری فصل برباد ہو جاتی اور مزاع کو کچھ بھی حاصل نہ ہوتا۔
اس صورت میں دھوکا و فریب اور سخت خطرہ پایا جاتا ہے‘ اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت حنظلہ رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ بن قیس بن عمرو زُرَقی انصاری۔
اہل مدینہ کے ثقہ تابعی ہیں۔
ایک قول کے مطابق انھیں شرف رؤیت نبوی حاصل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 768