صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4169
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا حَاتِمٌ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ , قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ؟ قَالَ:" عَلَى الْمَوْتِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ موت پر۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1592  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔`
یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے پوچھا: حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1592]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے،
کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی،
بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4169  
4169. حضرت یزید بن ابو عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سلمہ بن اکوع ؓ سے پوچھا کہ تم نے حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی کس شرط پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4169]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زوالِ آفتاب سے پہلے نماز جمعہ جائز ہے کیونکہ اس حدیث میں اس سائے کی نفی ہے جس کے نیچے بیٹھا جائے اور آرام کیا جائے، مطلق سائے کی نفی نہیں۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بھی اصحاب شجرہ سے ہیں۔
حضرت سلمہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی بیعت کی، پھرمیں درخت کے سائے میں بیٹھ گیا، جب بھیڑ ختم ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ابن اکوع!کیا تم بیعت نہیں کروگے؟ میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! میں نےآپ کی بیعت کرلی ہے توآپ نے فرمایا:
دوبارہ کرو۔
،، چنانچہ میں نے دوسری مرتبہ آپ سے بیعت کی۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث 2960)

آپ نے دو مرتبہ بیعت کیوں کی؟ اس کی تفصیل کتاب الجہاد میں مذکورہ حدیث کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔

موت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ وہاں شہید ہوجائیں، یعنی موت کو عدم فرار لازم ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4169