صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4183
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ نَافِعٍ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , خَرَجَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ , فَقَالَ:" إِنْ صُدِدْتُ عَنْ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فتنہ کے زمانہ میں عمرہ کے ارادہ سے نکلے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر بیت اللہ جانے سے مجھے روک دیا گیا تو میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ چنانچہ آپ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صلح حدیبیہ کے موقع پر صرف عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 303  
´عمرہ کی نیت کے ساتھ بعد میں حج کی نیت کرنا`
«. . . 223- وبه: أن ابن عمر خرج إلى مكة معتمرا فى الفتنة، فقال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأهل بعمرة من أجل أن النبى صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرة عام الحديبية، ثم إن عبد الله بن عمر نظر فى أمره، فقال: ما أمرهما إلا واحد، فالتفت إلى أصحابه، فقال: ما أمرهما إلا واحد، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة، قال: ثم طاف طوافا واحدا، ورأى أن ذلك مجزئ عنه وأهدى. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتنے (جنگ) کے زمانے میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ کی طرف چلے تو فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم اس طرح کریں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے اس وجہ سے عمرے کی لبیک کہی کہ حدبیبہ والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کی لبیک کہی تھی، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے مسئلے میں غور کیا تو فرمایا: دونوں (عمر ے اور حج) کا تو ایک ہی حکم ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ اپنے آپ پر حج لازم کر لیا ہے، پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور یہ سمجھے کہ یہ کافی ہے اور قربانی کی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 303]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1806، ومسلم 1230، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ عمرے کی نیت کرنے والا بعد میں عمرے اور حج دونوں یعنی حجِ قِران کی نیت کرلے تو جائز ہے۔
➋ اگر راستہ خطرناک ہو تو بھی حج اور عمرے کے لئے بیت اللہ کا سفر کرنا جائز ہے۔
➌ اگر کوئی شخص حالتِ احرام میں عمرہ یا حج کرنے کی نیت سے مکہ آئے اور کسی عذر کی وجہ سے حرم سے روک دیا جائے تو وہ احرام کھولے اور ایک بکری ذبح کرکے فدیہ دے۔ بعد میں اسے اس عمرے یا حج کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ واللہ اعلم
➍ تمام امور میں طریقۂ نبوی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
➎ مسائل میں خوب غور وخوض کے بعد فتویٰ دینا چاہئے۔
➏ اگر کسی مسئلے میں تحقیق بدل جائے تو سابقہ بات سے رجوع کرکے نئی تحقیق پر عمل کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 223