بلوغ المرام
كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل کا بیان
11. باب اللعان
لعان کا بیان
حدیث نمبر: 941
وعن ابن عباس أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: إن امرأتي لا ترد يد لامس قال: «‏‏‏‏غربها» ‏‏‏‏ قال: أخاف أن تتبعها نفسي قال: «‏‏‏‏فاستمتع بها» ‏‏‏‏ رواه أبو داود والترمذي والبزار ورجاله ثقات وأخرجه النسائي من وجه آخر عن ابن عباس بلفظ قال: «‏‏‏‏طلقها» قال: لا أصبر عنها قال: «‏‏‏‏فأمسكها» .‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! میری بیوی کسی کا ہاتھ نہیں جھٹکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دور کر دو۔ وہ بولا مجھے اندیشہ اور خوف ہے کہ میرا نفس اس کے پیچھے لگے گا۔ تو فرمایا اس سے فائدہ اٹھاتا رہ۔ اسے ابوداؤد اور بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نسائی نے دوسرے طریق سے اسے روایت کیا ہے اس کے الفاظ ہیں کہ اسے طلاق دے دو۔ وہ مرد بولا میں تو اس کے بغیر صبر نہیں کر سکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر اسے روکے رکھو۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء، حديث:2049، والنسائي، النكاح، حديث:3231، والبزار.»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2049  
´بانجھ عورت سے شادی کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے سے جدا کر دو، اس شخص نے کہا: مجھے ڈر ہے میرا دل اس میں لگا رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2049]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح ہے۔
اور یہ جملہ (لاتمنع يد  لامس) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان باوقار اور باغیر ت خاتون ہونے کے ناطے اس کے اندر غیروں سے کوئی نفرت ووحشت نہیں ہے۔
(مگر فعلا ً اس سے کوئی بدکاری صادرنہیں ہوئی) تو نبیﷺ نے اولاً اسے طلاق دینے کا فرمایا۔
مگر شوہر نے اپنی کیفیت بتائی تو رخصت دے دی جیسے کہ دین سے دور معاشروں میں ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں۔
مگر یہ معنی کرنا کہ وہ فعلاً بدکار تھی۔
پھر نبی کریمﷺ نے ا س کو گھر میں رکھنے کی اجازت دے دی۔
ایک ناقابل تصور معنی ہے۔
کیونکہ زانیہ سے نکاح حرام ہے۔
اور ایسا انسان جو اپنے اہل میں فحش کاری پرخاموش ہو دیوث ہوتا ہے۔
اسی لئے کچھ محدثین نے اس کا وہی مفہوم بیان کیا ہے۔
جو ہم نے شروع میں بیان کیا ہے۔
بہرحال بُری عادات کی بنا پر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے۔
یہ حدیث اس باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اگلی حدیث اس باب کے مطابق ہے۔
اس حدیث پر باب سہواً رہ گیا ہے یا کسی ناسخ (نقل کرنے والے) سے کوئی سہو ہوگیا ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2049