صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4188
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا يَعْلَى , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اعْتَمَرَ فَطَافَ , فَطُفْنَا مَعَهُ , وَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ , وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , فَكُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ لَا يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَيْءٍ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعلیٰ بن عبید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ (قضاء) کیا تو ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کی سعی بھی کی۔ ہم آپ کی اہل مکہ سے حفاظت کرتے تھے تاکہ کوئی تکلیف کی بات آپ کو پیش نہ آ جائے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2990  
´عمرہ کا بیان۔`
عبداللہ بن ابی او فی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے، آپ نے طواف کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، آپ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور ہم مکہ والوں سے آپ کو آڑ میں کیے رہتے تھے کہ وہ آپ کو کوئی اذیت نہ پہنچا دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2990]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ذوالقعدہ 6ھ میں طے پانے والے صلح کے معاہدے (صلح حدیبیہ)
میں یہ طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں کرینگے تاہم اگلے سال وہ عمرہ کرنے کے لیے آ سکیں گے۔
اس شرط کے مطابق ذوالقعدہ 7ھ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ ادا فرمایا۔
اس سفر میں دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
اس عمرے کو عمرۃالقضاء بھی کہتے ہیں۔ (فتح الباري: 7/ 627)

(2)
  اس موقع پر مشرکین اپنے گھروں سے نکل کر جبل قعیقعان پر جمع ہوگئے تھے تاہم خطرہ تھا کہ کوئی مشرک دھوکے سے رسول اللہ ﷺ کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔

(3)
ظاہری اسباب اختیار کرنا اللہ پر توکل کے منافی نہیں۔

(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم ﷺ سے اس قدر محبت رکھتے تھےکہ آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے پر تیار رہتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2990   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1902  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لیے ہوئے تھے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1902]
1902. اردو حاشیہ: یہ سن سات ہجری عمرہ قضا کا واقعہ ہے۔ اور آپ اس بار کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1902   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4188  
4188. حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے جب عمرہ قضاء کیا تو ہم آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ طوف کیا۔ آپ نے نماز پڑھی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ جب آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی تو ہم مکہ والوں سے آپ کی حفاظت کر رہے تھے، مبادا کوئی آپ کو تکلیف پہنچائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4188]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؒ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور انھوں نے درخت کے نیچے آپ کی بیعت کی تھی، پھر اگلے سال عمرہ قضاء کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرنے والوں میں سے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی دشمن رسول اللہ ﷺ اور کفار قریش کے درمیان ہوا تھا۔
اسے گزشتہ سال کی قضاء کے طور پر عمرہ قضاء نہیں کہا جاتا جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4188