بلوغ المرام
كتاب الجنايات -- جنایات ( جرائم ) کے مسائل
1. (أحاديث في الجنايات)
(جنایات کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1008
وعن أبي شريح الخزاعي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين: إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والنسائي وأصله في الصحيحين من حديث أبي هريرة بمعناه.
سیدنا ابوشریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اس خطبہ کے بعد اگر کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو متوفی کے ورثاء کو دو اختیار ہیں یا تو دیت لے لیں یا قاتل کو مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کا اصل اس کے ہم معنی صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «[إٍسناده صحيح]أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1008  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوشریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اس خطبہ کے بعد اگر کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو متوفی کے ورثاء کو دو اختیار ہیں یا تو دیت لے لیں یا قاتل کو مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کا اصل اس کے ہم معنی صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1008»
تخریج:
« «إٍسناده صحيح» أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عمرو بن خویلد اور بعض کے نزدیک خویلد بن عمرو کعبی عدوی خزاعی ہیں۔
فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔
مدینہ میں ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1008   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 604  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 604]
604 لغوی تشریح:
«حَبَسَ» یعنی روکا اور منع کیا۔
«الْفِيل» ہاتھی جسے اور ابرہہ کا لشکر بیت اللہ کو گرانے کے لیے لے کر آیا تھا، اس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔
«وَسَلَّطْ» یہ «تسليط» سے ماخوذ ہے۔ غلبہ کے معنی میں ہے۔
«سَاعَةً مِّنْ نَهَارِ» دن کی ایک گھڑی۔ اس سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے عصر کا وقت مراد ہے۔
«لَايُنَفَّرُ» «تنفير» سے صیغۂ مجہول ہے، یعنی بھگایا نہ جائے۔
«وَلَا يُخْتَلٰي» یہ بھی صیغۂ مجہول ہے، یعنی نہ کاٹا جائے۔
«سَاقِطَتُهَا» یعنی اس کی گری پڑی چیز۔
«أِلَّا لِمُنْشِدٍ» یہ «انشاد» سے ماخوذ ہے، یعنی وہاں گری پڑی چیز کھانے یا قبضہ کرنے کی نیت سے نہ اٹھائی جائے البتہ اسے اس نیت سے اٹھانا جائز ہے کہ اسے لوگوں میں متعارف کرایا جائے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے اور وہ اسے حاصل کر لے۔
«قَتِيل» یعنی مقتول۔
«فَهُوَ» یعنی مقتول کا ولی۔
«بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ» یعنی ولی کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے، چاہے تو قصاص لے اور چاہے تو دیت وصول کر لے۔
«أِلّا الأِذْخِرِ» یعنی آپ یہ فرمائیں: «أِلَّا الْاِذْخِرَ» اذخر کے سوا کہ اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔ اذخر کے ہمزہ اور خا کے نیچے زیر اور دونوں کے درمیان میں ذال ساکن ہے۔ یہ چوڑے پتوں والی خشبودار گھاس ہے جسے گھروں کی چھتوں میں لکڑیوں کے اوپر رکھا جاتا تھا اور قبروں کو بند کرنے میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا اور قبر کے اوپر رکھے جانے والے پتھروں یا کچی اینٹوں کے سوراخ بند کیے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی حرمت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ مکہ میں رہنے والوں سے لڑائی کرنا حرام ہے۔ جو اس میں داخل ہو گیا اسے گویا امن مل گیا۔ اس میں شکار اور اس کے درخت اور جڑی بوٹیاں کاٹنی حرام ہیں، نیز اس میں گری پڑی چیز اپنے استعمال کے لیے اٹھانا حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 604   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 112  
´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ . . .»
. . . وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 112]

تشریح:
یعنی اس کے اکھاڑنے کی اجازت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی سائل کی درخواست پر یہ جملہ مسائل اس کے لیے قلم بند کروا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تدوین احادیث و کتابت احادیث کی بنیاد خود زمانہ نبوی سے شروع ہو چکی تھی، جسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ ترقی دی گئی۔ پس جو لوگ احادیث نبوی میں ایسے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ذخیرہ احادیث کو بعض عجمیوں کی گھڑنت بتاتے ہیں، وہ بالکل جھوٹے کذاب اور مفتری بلکہ دشمن اسلام ہیں، ہرگز ان کی خرافات پر کان نہ دھرنا چاہئیے۔ جس صورت میں «قتل» کا لفظ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ پاک نے مکہ والوں کو قتل سے بچا لیا۔ بلکہ قتل و غارت کو یہاں حرام قرار د ے دیا۔ اور لفظ «فيل» کی صورت میں اس قصے کی طرف اشارہ ہے جو قرآن پاک کی سورۃ فیل میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سال ولادت میں حبش کا بادشاہ ابرہ نامی بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا مگر اللہ پاک نے راستے ہی میں ان کو ابابیل پرندوں کی کنکریوں کے ذریعے ہلاک کر ڈالا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 112   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4504  
´مقتول کا وارث دیت لینے پر راضی ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو خزاعہ کے لوگو! تم نے ہذیل کے اس شخص کو قتل کیا ہے، اور میں اس کی دیت دلاؤں گا، میری اس گفتگو کے بعد کوئی قتل کیا گیا تو مقتول کے لوگوں کو دو باتوں کا اختیار ہو گا یا وہ دیت لے لیں یا قتل کر ڈالیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4504]
فوائد ومسائل:
ایک تیسرا اختیار بھی ہے کہ معاف کر دیں جبکہ بعض فقہاء نے دیت لینے کو بھی معاف کرنے کی ایک صورت بیان کیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4504