بلوغ المرام
كتاب الحدود -- حدود کے مسائل
1. باب حد الزاني
زانی کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1034
عن أبي هريرة وزيد بن خالد الجهني رضي الله عنهما أن رجلا من الأعراب أتى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله أنشدك الله إلا قضيت لي بكتاب الله فقال الآخر وهو أفقه منه: نعم فاقض بيننا بكتاب الله وأذن لي فقال: «‏‏‏‏قل» ‏‏‏‏ قال: إن ابني كان عسيفا على هذا فزنى بامرأته وإني أخبرت أن على ابني الرجم فافتديت منه بمائة شاة ووليدة فسألت أهل العلم فأخبروني أنما على ابني: جلد مائة وتغريب عام وأن على امرأة هذا الرجم،‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله: الوليدة والغنم رد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام،‏‏‏‏ واغد يا أنيس إلى امرأة هذا؛ فإن اعترفت فارجمها» .‏‏‏‏ متفق عليه وهذا اللفظ لمسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرمائیں اور دوسرا جو اس کے مقابل میں زیادہ سمجھدار اور دانا تھا، نے بھی کہا کہ ہمارے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ وہ بولا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری پر کام کرتا تھا اس کی اہلیہ سے زنا کا مرتکب ہو گیا اور مجھے خبر دی گئی کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہے تو میں نے اس کے فدیے میں (بدلے میں) ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس کی جان چھڑائی۔ اس کے بعد میں نے اہل علم حضرات سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس عورت کو سزائے رجم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے عین مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس لوٹائی جائیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور سال بھر کی جلا وطنی ہے۔ اے انیس! تم اس آدمی کی اہلیہ کے پاس جاؤ (اور اس سے پوچھو) اگر وہ اس کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دو۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود، حديث:2695، ومسلم، الحدود، باب من اعترف علي نفسه بالزني، حديث:1697، 1698.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1034  
´زانی کی حد کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرمائیں اور دوسرا جو اس کے مقابل میں زیادہ سمجھدار اور دانا تھا، نے بھی کہا کہ ہمارے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ وہ بولا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری پر کام کرتا تھا اس کی اہلیہ سے زنا کا مرتکب ہو گیا اور مجھے خبر دی گئی کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہے تو میں نے اس کے فدیے میں (بدلے میں) ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس کی جان چھڑائی۔ اس کے بعد میں نے اہل علم حضرات سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس عورت کو سزائے رجم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے عین مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس لوٹائی جائیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور سال بھر کی جلا وطنی ہے۔ اے انیس! تم اس آدمی کی اہلیہ کے پاس جاؤ (اور اس سے پوچھو) اگر وہ اس کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دو۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1034»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود، حديث:2695، ومسلم، الحدود، باب من اعترف علي نفسه بالزني، حديث:1697، 1698.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے اور غیر شادی شدہ کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے‘ نیززنا کی حد کے عوض رقم دے کر راضی کرنا بہرنوع غلط ہے کیونکہ عزت و مصلحت کا تحفظ روپے سے نہیں بلکہ حدود سے ہوتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1034