بلوغ المرام
كتاب الحدود -- حدود کے مسائل
1. باب حد الزاني
زانی کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1041
وعن عمران بن حصين رضي الله عنهما أن امرأة من جهينة أتت النبي صلى الله عليه وآله وسلم وهي حبلى من الزنا فقالت: يا نبي الله أصبت حدا فأقمه علي فدعا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وليها فقال: «أحسن إليها فإذا وضعت فأتني بها» ‏‏‏‏ ففعل فأمر بها فشكت عليها ثيابها ثم أمر بها فرجمت ثم صلى عليها فقال عمر: أتصلي عليها يا نبي الله وقد زنت؟ فقال: «‏‏‏‏لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين من أهل المدينة لوسعتهم وهل وجدت أفضل من أن جادت بنفسها لله» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جہنی قبیلہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور وہ اس وقت زنا (کے فعل حرام) سے حاملہ تھی۔ اس نے کہ اے اللہ کے نبی! میں حد کی مستحق ہوں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد کو مجھ پر نافذ فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی و سرپرست کو بلوایا اور اسے تلقین فرمائی کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرو جب وہ وضع حمل سے فارغ ہو تو اسے میرے پاس لے آؤ۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا۔ چنانچہ اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے سنگسار کر دیا گیا پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے اے اللہ کے نبی! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ یہ تو زنا کی مرتکب ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہل مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کر دی جائے تو وہ سب پر وسیع ہو جائے گی۔ کیا تو نے اس سے بہتر آدمی دیکھا یا پایا ہے۔ جس نے اللہ کے لیے اپنی جان کو اللہ کے سپرد کر دیا ہو۔ (مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحدود، باب من اعترف علي نفسه بالزني، حديث:1696.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1041  
´زانی کی حد کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جہنی قبیلہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور وہ اس وقت زنا (کے فعل حرام) سے حاملہ تھی۔ اس نے کہ اے اللہ کے نبی! میں حد کی مستحق ہوں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد کو مجھ پر نافذ فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی و سرپرست کو بلوایا اور اسے تلقین فرمائی کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرو جب وہ وضع حمل سے فارغ ہو تو اسے میرے پاس لے آؤ۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا۔ چنانچہ اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے سنگسار کر دیا گیا پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے اے اللہ کے نبی! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ یہ تو زنا کی مرتکب ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہل مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کر دی جائے تو وہ سب پر وسیع ہو جائے گی۔ کیا تو نے اس سے بہتر آدمی دیکھا یا پایا ہے۔ جس نے اللہ کے لیے اپنی جان کو اللہ کے سپرد کر دیا ہو۔ (مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1041»
تخریج:
«أخرجه مسلم، الحدود، باب من اعترف علي نفسه بالزني، حديث:1696.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوری طور پر نافذ نہیں کر دینی چاہیے۔
وضع حمل تک توقف کرناچاہیے۔
وضع حمل کے بعد بھی اگر نومولود کی پرورش کا کوئی ذمہ لے اور اسے دودھ پلانے والی کا انتظام ہو تو پھر حد لگائی جائے گی۔
اگر ایسا بندوبست سردست نہ ہو سکے تو پھر دودھ چھڑانے تک نفاذ حد کا عمل مؤخر کیا جائے گا۔
2.حدیث میں ایسی عورت سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تاکید ہے‘ اس لیے کہ نادان رشتہ دار عورتیں اور بیوقوف مرد طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔
شرعی سزا کے علاوہ اس قسم کا ناروا رویہ اور بے جا سلوک تو اسے جیتے جی مارڈالنے کے مترادف ہے۔
3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر دیدہ (بیوہ‘ مطلقہ اور خاوند والی) عورت اگر بدکاری کرے تو اسے بھی سنگسار کیا جائے گا‘ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے ہوئے اس کے ستر کا لحاظ کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں بٹھا کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔
4. رجم کے سزا یافتہ مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔
5. جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ عوام و خواص سبھی نماز جنازہ میں شریک ہوں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1041