بلوغ المرام
كتاب الحدود -- حدود کے مسائل
1. باب حد الزاني
زانی کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1048
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اجتنبوا هذه القاذورات التي نهى الله عنها فمن ألم بها فليستتر بستر الله وليتب إلى الله فإنه من يبد لنا صفحته نقم عليه كتاب الله» .‏‏‏‏ رواه الحاكم وهو في الموطأ من مراسيل زيد بن أسلم.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گندے کاموں سے بچو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جو شخص ان میں مبتلا ہو جائے تو اسے اللہ کے ڈالے ہوئے پردہ میں چھپے رہنا چاہیئے اور اسے چاہیئے کہ اللہ کی جناب میں (پوشیدہ طور پر) توبہ کر لے کیونکہ جو شخص اپنی پیٹھ ہمارے سامنے ظاہر کرے گا ہم اس پر کتاب اللہ کو نافذ و قائم کر کے چھوڑیں گے۔ اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور یہ موطا میں زید بن اسلم سے مرسلاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:4 /244، 383 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وملك في الموطأ:2 /825، وللحديث شواهد في التمهيد:(5 /224) وغيره.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1048  
´زانی کی حد کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گندے کاموں سے بچو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جو شخص ان میں مبتلا ہو جائے تو اسے اللہ کے ڈالے ہوئے پردہ میں چھپے رہنا چاہیئے اور اسے چاہیئے کہ اللہ کی جناب میں (پوشیدہ طور پر) توبہ کر لے کیونکہ جو شخص اپنی پیٹھ ہمارے سامنے ظاہر کرے گا ہم اس پر کتاب اللہ کو نافذ و قائم کر کے چھوڑیں گے۔ اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور یہ موطا میں زید بن اسلم سے مرسلاً مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1048»
تخریج:
«أخرجه الحاكم:4 /244، 383 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وملك في الموطأ:2 /825، وللحديث شواهد في التمهيد:(5 /224) وغيره.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بشری کمزوری کی بنا پر گناہ کا سرزد ہوجانا خلاف توقع نہیں‘ مگر جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنا جرم اور فعل لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتا پھرے بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے تو اسے پردے ہی میں رہنے دے اور پوشیدہ طور پر اللہ رب العزت کے حضور توبہ کرے اور اس سے معافی کا طلب گار ہو۔
لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا برملا اظہار کرتا اور اعتراف جرم کرتا ہے تو پھر وہ کسی صورت میں شرعی سزا سے نہیں بچ سکتا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ صحابی ہیں اور بَنُو بَلِيّ‘ یعنی بنو عجلان قبیلہ سے ہیں۔
یہ انصار کے قبیلۂبنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔
بدر میں شریک ہوئے۔
کہا جاتاہے کہ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔
ہشام کلبی نے کہا ہے کہ انھیں طلیحہ بن خویلد اسدی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز‘ یعنی ۱۱ ہجری میں جنگ بزاخہ کے روز قتل کیا تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1048