بلوغ المرام
كتاب الحدود -- حدود کے مسائل
3. باب حد السرقة
چوری کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1061
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه سئل عن التمر المعلق فقال: «‏‏‏‏من أصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه الغرامة والعقوبة ومن خرج بشيء منه بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع» .‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والنسائي وصححه الحاكم.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکی ہوئی کھجور کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھوکا ہو وہ کھانے کے لیے توڑ لے مگر کپڑے میں نہ بھرے تو اس پر کوئی سزا نہیں اور جو شخص کپڑے میں ڈال کر نکل جائے تو اس پر تاوان بھی ہے اور سزا بھی اور جو شخص ایسی صورتحال میں کھجوریں لے جائے کہ مالک نے توڑ کے محفوظ جگہ میں ڈھیر کر لیا ہو اور ان کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو تو اس پر قطع ید کی سزا نافذ ہو گی۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے تخریج کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4390، والنسائي، قطع السارق، حديث:4961، والحاكم.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1061  
´چوری کی حد کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکی ہوئی کھجور کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھوکا ہو وہ کھانے کے لیے توڑ لے مگر کپڑے میں نہ بھرے تو اس پر کوئی سزا نہیں اور جو شخص کپڑے میں ڈال کر نکل جائے تو اس پر تاوان بھی ہے اور سزا بھی اور جو شخص ایسی صورتحال میں کھجوریں لے جائے کہ مالک نے توڑ کے محفوظ جگہ میں ڈھیر کر لیا ہو اور ان کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو تو اس پر قطع ید کی سزا نافذ ہو گی۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے تخریج کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1061»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4390، والنسائي، قطع السارق، حديث:4961، والحاكم.»
تشریح:
1. اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی مختلف صورتیں ممکن ہیں‘ مثلاً: پھل درخت کے اوپر ہی ہیں، ابھی تک توڑنے کی نوبت نہیں آئی‘ ایک بھوکا مسافر پھل توڑ کر کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتا ہے تو اس پر بالاتفاق کوئی جرمانہ اور تاوان عائد ہوگا نہ اسے چوری کی سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا، لیکن اگر پھلوں کو پہلے درختوں سے اتارے‘ پھر شکم سیر بھی ہو جائے، مزید برآں گٹھڑی باندھ کر ساتھ لے جانے کی بھی تیاری کرے تو ایسی صورت میں اس پر جرمانہ اور تاوان بھی عائد ہوگا اور سزا بھی دی جائے گی۔
اور اگر مالک نے پھل درختوں سے اتار کر ڈھیر کر لیے ہوں اور اس ڈھیر کی نوعیت محفوظ سامان کی ہو، پھر اس میں سے چوری کی صورت میں قطع ید کی سزا ہوگی بشرطیکہ مسروقہ پھل یا اناج کی قیمت قطع ید کے نصاب کے مساوی ہو۔
2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالی جرمانہ بھی جائز ہے۔
3. جمہور اہل علم نے سزائے قطع ید میں مال کے محفوظ ہونے کی جو شرط لگائی ہے ان کا استدلال بھی اسی حدیث سے ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1061   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4390  
´جن چیزوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہو گی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4390]
فوائد ومسائل:
1) درختوں پر کھا لینے کی اجازت صرف اس کو ہےجو فی الواقع حاجت مند اور بھوکا ہو جیسےکہ کوئی مسافر ہو۔
علاقے کے مجرم ذہنیت کے لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
2) ایک چوتھائی دینار سےکم قیمت مال کی چوری میں قاضی کوئی مناسب سزا دے سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4390