بلوغ المرام
كتاب الجهاد -- مسائل جہاد
1. (أحاديث في الجهاد)
(جہاد کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1107
وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال في أسارى بدر: «‏‏‏‏لو كان المطعم بن عدي حيا ثم كلمني في هؤلاء النتنى لتركتهم له» ‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیران بدر کے متعلق فرمایا اگر مطعم بن عدی بقید حیات ہوتا پھر وہ میرے پاس آ کر ان مرداروں کے متعلق بات چیت کرتا تو میں ان کو اس کی خاطر چھوڑ دیتا۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ما منّ النبي صلي الله عليه وسلم علي الأساري من غير أن يخمس، حديث:3139.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1107  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیران بدر کے متعلق فرمایا اگر مطعم بن عدی بقید حیات ہوتا پھر وہ میرے پاس آ کر ان مرداروں کے متعلق بات چیت کرتا تو میں ان کو اس کی خاطر چھوڑ دیتا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1107»
تخریج:
«أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ما منّ النبي صلي الله عليه وسلم علي الأساري من غير أن يخمس، حديث:3139.»
تشریح:
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہوا کہ احسان کا بدلہ دینا مسنون ہے‘ خواہ کافر کا احسان ہی کیوں نہ ہو۔
2. مسلمان کے احسان کا بدلہ تو بطریق اولیٰ دینا چاہیے۔
3. اچھے کام میں کسی کے لیے سفارش کرنا بھی جائز ہے۔
اور جائز کام کی سفارش کو قبول کرنا بھی مسنون ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1107   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2689  
´قیدی پر احسان رکھ کر بغیر فدیہ لیے مفت چھوڑ دینے کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا: اگر مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2689]
فوائد ومسائل:

مذکورہ آیت قرآنی اور احادیث سے ثابت ہوا کہ حسب مصلحت قیدی کو فدیہ لئے بغیر احسان کرتے ہوئے رہا کردینا جائز ہے۔


مطعم بن عدی کا رسول اللہ ﷺ یہ احسان تھا کہ طائف سے واپسی پر آپﷺ اس کی حمایت اور پناہ سے مکہ میں آئے تھے۔
اور اس نے آپﷺ کا دفاع بھی کیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2689