بلوغ المرام
كتاب الجهاد -- مسائل جہاد
1. (أحاديث في الجهاد)
(جہاد کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1116
وعن رويفع بن ثابت رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يركب دابة من فيء المسلمين حتى إذا أعجفها ردها فيه ولا يلبس ثوبا من فيء المسلمين حتى إذا أخلقه رده فيه» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والدارمي ورجاله لا بأس بهم.
سیدنا رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے گھوڑے پر سوار نہ ہو حتیٰ کہ جب وہ کمزور ہو جائے تو اسے واپس کر دے اور مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتیٰ کہ جب وہ بوسیدہ و پرانا ہو جائے تو اسے واپس بیت المال میں جمع کرا دے۔ اسے ابوداؤد اور دارمی نے روایت کیا ہے اور اس کے سب راوی ایسے ہیں جن میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «[إسناد حسن] أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الرجل ينتفع من الغنيمة بشيء، حديث:2708، والدارمي:2 /230.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1116  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مال غنیمت کے گھوڑے پر سوار نہ ہو حتیٰ کہ جب وہ کمزور ہو جائے تو اسے واپس کر دے اور مسلمانوں کے مال غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتیٰ کہ جب وہ بوسیدہ و پرانا ہو جائے تو اسے واپس بیت المال میں جمع کرا دے۔ اسے ابوداؤد اور دارمی نے روایت کیا ہے اور اس کے سب راوی ایسے ہیں جن میں کوئی حرج نہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1116»
تخریج:
« «إسناد حسن» أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الرجل ينتفع من الغنيمة بشيء، حديث:2708، والدارمي:2 /230.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غنیمت میں حاصل شدہ کپڑوں اور سواریوں کو میدان جنگ میں ضرورت کے وقت استعمال میں لایا جا سکتا ہے لیکن اس بات کی ممانعت ہے کہ سواری سے اس طرح فائدہ اٹھایا جائے کہ وہ کمزور اور لاغر ہو جائے یا کپڑے کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ بوسیدہ اور پرانا ہو جائے‘ اس لیے اگر سواری کو کمزور کیے بغیر اور کپڑے کو بوسیدہ کیے بغیر اپنی ضرورت پوری کر لی جائے تو اس کا جواز ہے۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1116   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2708  
´مال غنیمت میں سے کسی چیز کو اپنے کام میں لانا کیسا ہے؟`
رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت کے کسی جانور پر سوار نہ ہو کہ اسے جب دبلا کر ڈالے تو مال غنیمت میں واپس لوٹا دے، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ مسلمانوں کی غنیمت سے کوئی کپڑا نہ پہنے کہ جب اسے پرانا کر دے تو اسے غنیمت کے مال میں واپس کر دے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2708]
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے مقررہ حقوق والی چیزوں میں بقدر حق لینا۔
اور عام جائز چیزوں میں ایک دوسرے کا لحاظ کرنے اور ہمدردی برتنے کا حکم دیا ہے۔
جبکہ لوٹ اور چھینا جھپٹی میں استحقاق کی بجائے زور بازو س کام لیا جاتا ہے۔
اور کسی کو زیادہ اور کسی کو کم ملتا ہے۔
اور کئی محروم رہ جاتے ہیں۔
اس لئے یہ طرز عمل جائز نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2708