صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4205
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، أَوْ قَالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَى وَادٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ"، وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقُولُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَقَالَ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ"، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جانوں پر رحم کرو ‘ تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو ‘ جو تم سے دور ہو ‘ جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا۔ میں نے جب «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی مدد شامل ہو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3824  
´لاحول ولا قوۃ إلا باللہ کی فضیلت۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «لا حول ولا قوة إلا بالله» گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3824]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
  یہ جملہ اللہ کے ذکر میں اہم جملہ ہےکیو نکہ اس میں اس بات کا اقرار ہےکہ ہر قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔

(2)
اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد و توکل کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے عاجزی اورمسکینی کا اظہار ہے، اور عبودیت کا یہ اظہار اللہ تعالٰی کو پسند ہے۔

(3)
نیکی کا کام انجام دے کر یا گناہ سے اجتناب کر کے دل میں فخر کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نیکی برباد گناہ لازم کی کیفیت پیش آ سکتی ہے، اس سے بچاؤ کے لیے اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ سب میری کوشش اور بہادری سے نہیں بلکہ محض اللہ کی توفیق اور اس کے احسان سے ہے۔

(4)
اس سوچ کے ساتھ یہ الفاظ پڑھنے سےیقینا جنت کی عظیم نعمتیں اور بلند درجات حاصل ہوں گے، اس لیے اسے جنت کا خزانہ قرار دیا گیا ہے۔

(5)
اللہ کا ذکر سری طور پر کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری نہیں ہوتی، البتہ جن مقامات پر ذکر بلند آواز کرنا مسنون ہے، وہاں بلند آواز ہی سے کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3824   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1341  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر کہا اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ جو یہ ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہ برائی سے منہ موڑنا اور نیکی پر زور سوائے اللہ کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے «ولا ملجأ من الله إلا إليه» کہ اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1341»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة، حديث:6384، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر...، حديث:2704، والنسائي في الكبرٰي:6 /97، حديث:10190.»
تشریح:
اس حدیث میں بھی لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کی فضیلت کا بیان ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ چیز جس قدر نفیس اور قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی اسی طرح بہت اہتمام سے کی جاتی ہے۔
اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔
اور یہ کلمات تو جنت کا خزانہ ہیں‘ اس لیے ان کی بھی محافظت کرنی چاہیے اور انھیں کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1341   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3374  
´دعا سے متعلق ایک اور باب​۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله» (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3374]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی:
جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا،
کیونکہ اس کلمے کا مطلب ہے برائی سے پھرنے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
جب بندہ اس کا بار باراظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے،
بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3374   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4205  
4205. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق، جو آپ کے ہمراہ تھا اور اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا: یہ شخص اہل جہنم سے ہے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی پامردی سے لڑا اور اسے بہت زیادہ زخم آئے۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے لیکن اس شخص کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی، چنانچہ اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اس سے اپنا سینہ چاک کر لیا۔ (یہ منظر دیکھ کر) کچھ مسلمان دوڑتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ کی بات کو سچا کر دکھایا ہے۔ اس شخص نے تیر سے اپنے سینے کو زخمی کر کے خودکشی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: اے فلاں! اٹھ کر اعلان کر دو کہ جنت میں ایمان دار کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی کسی بدکار آدمی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4205]
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب آپ نے اس کو دوزخی فرمایا لوگوں کو بہت گراں گزرا۔
انہوں نے کہا یا رسول اللہ! جب ایسی محنت اور کوشش کرنے والا دوزخی ہے تو پھر ہمارا حال کیا ہونا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ شخص دوزخی ہے اپنا نفاق چھپاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ ظاہری اعمال پر حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
جب تک اندرونی حالات کی درستگی نہ ہو۔
اللہ سب کو نفاق سے بچائے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا قول جو شبیب عن یونس کے طریق سے روایت کیا گیا ہے اصل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ کے پاس اس وقت آئے تھے جب جنگ خیبر ختم ہو چکی تھی۔
اس لیے شبیب اور معمر کی روایت میں جو خیبر کا لفظ ہے اس میں شبہ رہتا ہے تو امام بخاری ؒ نے شبیب اور ابن مبارک کی روایتوں سے یہ ثابت کیا کہ ان میں بجائے خیبر کے حنین کا لفظ مذکور ہے۔
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہاں خیبر کا لفظ مذکور ہے بعض نے کہا وہی صحیح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4205   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4205  
4205. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق، جو آپ کے ہمراہ تھا اور اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا: یہ شخص اہل جہنم سے ہے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی پامردی سے لڑا اور اسے بہت زیادہ زخم آئے۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے لیکن اس شخص کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی، چنانچہ اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اس سے اپنا سینہ چاک کر لیا۔ (یہ منظر دیکھ کر) کچھ مسلمان دوڑتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ کی بات کو سچا کر دکھایا ہے۔ اس شخص نے تیر سے اپنے سینے کو زخمی کر کے خودکشی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: اے فلاں! اٹھ کر اعلان کر دو کہ جنت میں ایمان دار کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی کسی بدکار آدمی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4205]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ لوگوں کو اپنے اعمال پر غرور نہیں کرنا چاہیے اور کسی کے ظاہری حال سے اس کی آخرت کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
ظاہری اعمال پر حکم نہیں لگانا چاہیے جب تک اندرونی حالات کی درستی کاعلم نہ ہو۔

اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو کوئی خودکشی کرے اسے ضرور دوزخی کہا جائے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس فعل کے سبب انسان سزا اور دوزخ کا مستحق ہوجاتا ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے یا مذکورہ گناہ کی سزا پاکر بالآخر وہ جنت میں پہنچ جائے جیسا کہ عام گناہ گار اہل ایمان کے ساتھ معاملہ ہوگا۔

طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو دوزخی قراردیا تولوگوں کو بہت گراں گزرا، انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! جب ایسی محنت اور کوشش کرنے والا انسان دوزخی ہے تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا؟ آپ نے فرمایا:
بلاشبہ یہ دوزخی ہے اور اس نے اپنے نفاق کو چھپا رکھا تھا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: 296/1، 297)

اس حدیث میں جس آدمی کا ذکر ہوا ہے اس سے ملتا جلتا واقعہ آگے آنے والی حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے۔
اس میں اختلاف ہے کہ دونوں واقعات ایک شخص سے متعلق ہیں یا الگ الگ۔
بعض شارحین نے ان واقعات کو الگ الگ قراردیا ہے کیونکہ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے کہ اس نے تلوار کی دھار پر سینہ رکھ کر خود کشی کی جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ اس نے تیر سے خود کو ہلاک کرڈالا، نیز سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعے کا علم ہواتو آپ نے بلال ؓ کو اعلان کرکے بھیجا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں خاتمے اور انجام کا بیان ہے۔
لیکن ہمارے رجحان کے مطابق ایک ہی واقعے کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں، نیز ممکن ہے کہ اس نے پہلے تیر سے کوشش کی ہو، پھر اس کے لیے تلوار استعمال کی ہو۔
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی ہے کہ دونوں واقعات ایک ہیں اور ان میں مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 589/7)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4205