بلوغ المرام
كتاب الجامع -- متفرق مضامین کی احادیث
6. باب الذكر والدعاء
ذکر اور دعا کا بیان
حدیث نمبر: 1356
وعن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وارزقني علما ينفعني» .‏‏‏‏ رواه النسائي والحاكم. وللترمذي من حديث أبي هريرة نحوه وقال في آخره: «‏‏‏‏وزدني علما الحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» ‏‏‏‏ وإسناده حسن.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وارزقني علما ينفعني» اے اللہ! جو علم تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اسے میرے لیے نافع بنا دے اور مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لیے نفع بخش ہو اور مجھے نفع والا علم دے۔ اسے نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس کے آخر میں اتنا اضافہ ہے «وزدني علما الحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» اور میرے علم میں اضافہ فرما۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ہے اور میں اہل دوزخ کے حالات سے پناہ مانگتا ہوں۔ اس کی اسناد اچھی ہیں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي في الكبرٰي: 4 /445، حديث:7868، والحاكم:1 /510 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي، وحديث أبي هريرة: أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3599 وسنده ضعيف، محمد بن ثابت مجهول، وتلميذه ضعيف.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1356  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وارزقني علما ينفعني» اے اللہ! جو علم تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اسے میرے لیے نافع بنا دے اور مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لیے نفع بخش ہو اور مجھے نفع والا علم دے۔ اسے نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس کے آخر میں اتنا اضافہ ہے «وزدني علما الحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» اور میرے علم میں اضافہ فرما۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ہے اور میں اہل دوزخ کے حالات سے پناہ مانگتا ہوں۔ اس کی اسناد اچھی ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1356»
تخریج:
«أخرجه النسائي في الكبرٰي: 4 /445، حديث:7868، والحاكم:1 /510 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي، وحديث أبي هريرة: أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3599 وسنده ضعيف، محمد بن ثابت مجهول، وتلميذه ضعيف.»
تشریح:
1. اس حدیث میں جو دعا منقول ہے اس میں ایسے علم کے لیے درخواست کی گئی ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید اور سود مند ہو۔
2. جو علم‘ آخرت تباہ کر دے اس کی دعا کرنا مومن کو زیب نہیں دیتا کیونکہ مومن کے نزدیک اخروی کامیابی و کامرانی بنیادی چیز ہے۔
3.نافع علم وہ ہے جس سے ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو۔
4. دنیاوی علوم کی درخواست دنیاوی امور کی اصلاح اور بہتری کے لیے جائز ہے۔
اس سے انسان کے ایمان باللہ میں اضافہ ہوگا‘ ان علوم میں بھی اہل ایمان کو برتری حاصل ہونی چاہیے ورنہ دنیاوی اعتبار سے کفار کا تسلط اور غلبہ ہوگا۔
اس دور میں یہی صورت حال ہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں غیرمسلم بہت آگے نکل چکے ہیں اور وہی آج دنیا کی قیادت کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں‘ اسی زور پر جہاں چاہتے ہیں انقلاب اور تبدیلی لے آتے ہیں۔
اہل اسلام کو ان میدانوں میں بھی اپنی برتری اور فوقیت کا سکہ منوانا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1356