مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الايمان -- ایمان کا بیان

ایمان سایہ کی مثل ہے، ایمان کن چیزوں اعمال زائل ہو جاتا ہے
حدیث نمبر: 26
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْعَيْنَانُ تَزْنِيَانِ، وَالرِّجْلانِ تَزْنِيَانِ، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ" .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھیں (دیکھنے کا) زنا کرتی ہیں، ٹانگیں، پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الاستذان، باب زنا الجوارح دون الفرج، رقم: 6243. مسلم، كتاب القدر، باب قدر على ابن آدم حظه الخ، رقم: 2657. مسند احمد: 329/2. سنن كبري بيهقي: 89/7»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 86  
´قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يصدق ذَلِك كُله ويكذبه» ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: «كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا محَالة فالعينان زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کی قسمت میں زنا کا جو حصہ لکھ رکھا ہے تو وہ اس کو ضرور پہنچے گا، آنکھ کا زنا حرام چیزوں کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا بولنا یعنی نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز کلام کرنا اور نفس اس کی آرزو اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو خواہش کو سچا کرتی یا جھوٹا بتاتی ہے۔ یہ روایت بخاری و مسلم نے کی ہے اور مسلم کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان پر اس کے زنا و بدکاری کا حصہ ضرور لکھا جا چکا ہے جسے وہ ضرور پانے والا ہے۔ دونوں آنکھوں کا زنا نامحرم عورت کو بری نگاہ سے دیکھنا ہے، اور دونوں کانوں کا زنا نامحرم شہوت انگیز باتوں کا سننا ہے، اور زبان کا زنا شہوت انگیز باتیں کرنا، اور ہاتھ کا زنا اس کا پکڑ دھکڑ کرنا یعنی نا محرم کو بری نیت سے چھونا، اور پاؤں کا زنا بدکاری اور گناہ کے کاموں کی طرف جانا اور چلنا ہے، اور دل اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق و تکذیب کرتی ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 86]

تخریج:
[صحيح بخاري 6243]،
[صحيح مسلم 6753]

فقہ الحدیث:
➊ جس چیز کا دیکھنا حرام ہے اس پر (دانستہ یا نادانستہ) نظر کا جانا زنا قرار دیا گیا ہے۔ جو نظر نادانستہ پڑ جائے اسے شریعت میں معاف کر دیا گیا ہے، مگر جو شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے حرام چیز کو دیکھے تو وہ زنا کار اور مجرم ہے۔ اہل ایمان کا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ اگر ان کی نظر اچانک کسی ناپسندیدہ چیز پر پڑ جائے تو فوراً وہاں سے نظر ہٹا لیتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔
➋ جو اعمال گناہ اور نافرمانی کی طرف لے جاتے ہیں ان سے کلی اجتناب کرنا ضروری ہے۔
➌ فحش کلامی اور حرام چیزوں کا تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ اسی طرح بےحیائی اور ٹی وی وغیرہ پر فحش پروگرام دیکھنا اور موسیقی، گندے اور شرکیہ گانے سننا حرام ہے۔ کتاب و سنت کے مخالف جتنی چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا»
اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔ [التحريم: 6]
➍ انسان کو ہر وقت اسی کوشش میں مگن رہنا چاہئیے کہ کتاب و سنت پر دن رات عمل کرتا رہے اور تمام حرام و مکروہ امور سے ہمیشہ اجتناب کرتا رہے۔ اگر نادانستہ کسی حرام و مکروہ امر پر نظر پڑ جائے تو فوراً اپنے آپ کو بچائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ غفور و رحیم ہے، اپنے فضل و کرم سے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ ان شاء اللہ
بدنصیب ہیں وہ لوگ جو دن رات کتاب و سنت کی مخالفت اور حرام امور میں مگن رہتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 86   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 26  
´ایمان سایہ کی مثل ہے، ایمان کن چیزوں اعمال زائل ہو جاتا ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھیں (دیکھنے کا) زنا کرتی ہیں، ٹانگیں، پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 26]
فوائد:
ایک دوسری حدیث میں مذکوہ حدیث کی وضاحت ملتی ہے:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر آدم زاد کے لیے زنا سے اس کا حصہ (لکھا گیا) ہے اور مذکورہ قصہ بیان کیا، کہا: ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کو پکڑنا ہے، پاؤں زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کی طرف چلنا ہے۔ منہ زنا کرتا ہے اور اس کا بدکاری کا بوسہ لینا ہے۔ [سنن ابي داؤد، رقم: 2153]
ایک اور روایت میں ہے کہ:
کان زنا کرتے ہیں اور ان کا بدکاری سننا ہے۔ [سنن ابوداؤدرقم: 2153]
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں:
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم پر اس کے زنا کا ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض ان میں حقیقی زنا کرتے ہیں، یعنی اپنی شرمگاہ کو دوسرے کی شرمگاہ میں داخل کرتے ہیں (جو حرام ہے)۔
اور بعض مجازی زنا کرتے ہیں یعنی غیر محرم اشیا ء کو دیکھتے ہیں یا لمس کرتے ہیں یا پھر انہیں سنتے ہیں، مثال کے طور پر کسی ناواقف (غیر محرم) عورت کو چھونا، یا اسے بوسہ دینا، چومنا یا اس کے پاس زنا کی غرض سے چل کر جانا، یا اسے دیکھنا اور (اسی طرح) دل میں کوئی (برا عزم) خیال سوچنا وغیرہ یہ سب مجازی زنا کی اقسام ہیں۔ [شرح مسلم للنووي: ص188]
گناہ کی دو اقسام ہیں کبیرہ اور صغیرہ۔
صغیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی،
اور کبیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر کر دی ہے۔
صغیرہ گناہ عام نیکی سے معاف ہو جاتے ہیں تاہم شریعت نے صغیری گناہ کرنے بھی روگا ہے، بعض اوقات یہ صغیرہ گناہ، کبیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھا جائے اور عادت بنا لی جائے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہئے۔
اعضائے جسم کو زنا سے تعبیر کرنا، اس سے زنا کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کا انجام انتہائی برا ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے «وَلَا تقرَبُوا الزِّنٰي اِنَّه’ فَاحِشَةً وَّسَا َٔ سَبِيلَاً» ‏‏‏‏ [الاسراء: 32]
اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی کا کام اور بُرا راستہ ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 26