مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الايمان -- ایمان کا بیان

موت سے پہلے مشرک توبہ کرے تو اس کا ایمان درست ہو گا
حدیث نمبر: 37
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَمِّهِ: ((قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ))، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ يُعَيَّرَ قُرَيْشٌ بِي لَأَقْرَرْتُ عَيْنَكَ بِهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾(القصص: 56).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا: «لا الهٰ الا الله» کا اقرار کر لو میں قیامت کے دن اس وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ تو انہوں نے کہا: اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے تو میں آپ کے سامنے اس کا اقرار کر لیتا، پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ» [28-القصص:56] آپ جسے چاہیں کہ ہدایت دے دیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے متعلق خوب جانتا ہے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب الدليل على صحة الاسلام الخ، رقم: 25. سنن ترمذي، رقم: 3188. سنن نسائي، رقم: 2035»
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 37  
´موت سے پہلے مشرک توبہ کرے تو اس کا ایمان درست ہو گا`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا: «لا الهٰ الا الله» کا اقرار کر لو میں قیامت کے دن اس وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ تو انہوں نے کہا: اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش مجھے عار دلائیں گے تو میں آپ کے سامنے اس کا اقرار کر لیتا، پس اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ» [28-القصص:56] آپ جسے چاہیں کہ ہدایت دے دیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے متعلق خوب جانتا ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 37]
فوائد:
صحیح بخاری میں ہے سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: چچا آپ ایک کلمہ «لا اله الا الله» کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ نے کہا: ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے، ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے، آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا اله الا الله» کہنے سے انکار کر دیا، پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے آپ کے بارے میں ایسا کرنے سے منع نہیں کر دیا جاتا۔ پھر اللہ ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی:
«مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ» [9-التوبة:113]
نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش طلب کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر یہ بات واضع ہو چکی کہ مشرکین جہنمی ہیں۔ [بخاري، كتاب الجنائز، رقم: 1360]
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا موت سے پہلے مشرک توبہ کرے تو اس کا ایمان درست ہو گا۔ اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے بشرطیکہ توبہ سکرات سے پہلے۔ لیکن سکرات الموت کے بعد توبہ قابل قبول نہیں ہو گی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا» [40-غافر:85]
لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق کو پہچاننے کے باوجود بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ اپنی برادری کے طعنوں یا دنیاوی غرض کے لیے حق قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ابوطالب تو فوت ہو گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جاؤ انہیں دفن کردو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: وہ ایک مشرک کی حیثیت سے فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا: جاؤ انہیں دفن کر دو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب میں نے انہیں دفن کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: غسل کر لو۔ [سنن ابي داود: 3214، سنن النسائي: 190، اسناده صحيح]
معلوم ہوا ہدایت دینا اللہ کا اختیار ہے نبی جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 37