مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الايمان -- ایمان کا بیان

قیامت کے دن حسب و نسب کام نہیں آئے گا
حدیث نمبر: 39
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَجَمَعَهُمْ فَعَمَّ، وَخَصَّ: ((يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ، وَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب یہ آیت: «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ» اپنے قریبی رشتے داروں کو آگاہ فرمائیں۔ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے عام و خاص کو جمع کیا اور فرمایا: بنو کعب بن لؤی! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبدالشمس! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبد مناف! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، البتہ جو رشتے داری ہے میں اس تعلق کو نبھاؤں گا۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب فى قوله تعالىٰ (وانذر عشيرتك الافربين)، رقم: 204. سنن ترمذي، رقم: 3185، 3184. سنن نسائي، رقم: 3644. مسند احمد: 333/2»
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 39  
´قیامت کے دن حسب و نسب کام نہیں آئے گا`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب یہ آیت: «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ» اپنے قریبی رشتے داروں کو آگاہ فرمائیں۔ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے عام و خاص کو جمع کیا اور فرمایا: بنو کعب بن لؤی! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبدالشمس! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، بنو عبد مناف! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، البتہ جو رشتے داری ہے میں اس تعلق کو نبھاؤں گا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 39]
فوائد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوری قوم کے لیے اور پوری نسل انسانی کے لیے تھی لیکن ترجیحاً اپنے رشتے داروں کے لیے تھی جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے توحید کی دعوت اپنے باپ آزر کو دی۔
دوسری روایت میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت: «وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ» [26-الشعراء:214] نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی: یا صباحا (یہ جملہ ایسے موقع پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بولا جاتا تھا جب کوئی عظیم واقع رونما ہو جاتا) سب لوگوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ گھوڑوں کا ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے نکلنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟ سب نے کہا: ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں تمہیں سخت ترین عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب کھڑا ہو کر کہنے لگا: تیری تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں سورۂ تبت نازل فرمائی۔ [بخاري، رقم،: 4981۔ مسلم، رقم: 208]
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حسب و نسب کام نہیں آئے گا، بلکہ ایمان اور عمل صالح پر ہی نجات ہو گی جیسا کہ سیدنا نوح علیہ السلام نے جب اللہ ذوالجلال سے اپنے بیٹے کے متعلق دعا کی تو فرمایا: «يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ» [11-هود:46]
یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مشرک کافر کی نہ نجات ہو گی اور شفاعت بھی ان کے حق میں منظور نہیں ہو گی۔
حدیث کے آخر میں ہے رشتہ داری کے تعلق کو نبھاتا ہوں گا۔ مطلب یہ کہ صلہ رحمی کے طور پر بھی سے جو ہو سکا وہ میں کروں گا۔ کیونکہ یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ معلوم ہوا مشرک رشتہ داروں سے بھی صلہ بھی کرنی چاہیے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 39