صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4240
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ , وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ"، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَكْرٍ: مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَىأَبِي بَكْرٍ وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا: أَصَبْتَ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہو گئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4240  
4240. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4240]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبہ کے بعد اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
ان کے بیعت کرتے ہی سب بنو ہاشم نے بیعت کر لی اور ابو بکر کی خلافت پر تمام صحابہ ؓ کا اجتماع ہو گیا۔
اب جو ان کی خلافت کو صحیح نہ سمجھے وہ تمام صحابہ کا مخالف ہے اور وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہے۔
﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ (نساء: 115)
ابن حبان نے ابو سعید سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ پر شروع ہی میں بیعت کرلی تھی۔
بیہقی نے اسی روایت کو صحیح کہا ہے تو اب مکرر بیعت تاکید کے لیے ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4240   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4240  
4240. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4240]
حدیث حاشیہ:

مال فے سے مراد وہ مال ہے جو جنگ وقتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
مدینہ طیبہ میں یہ وہ اموال تھے جو بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ملے تھے، اسی طرح فدک کی زمین بھی آپ کو بطور فے ہی ملی تھی، کچھ خیبر کی زمینیں بھی اسی طرح آپ کے ہاتھ آئی تھیں۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو غزوہ خیبر کے عنوان کے تحت اس لیے بیان کیا ہے کہ ان مفتوحہ زمینوں کی حیثیت کھول دیں۔
آپ خیبر کی زمین کو اہل خیبر اور مصالحہ عامہ پرخرچ کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے تمام متروکات صدقہ بن گیا، ان پر مالکانہ حقوق قائم کرنا درست نہ تھا جیسا کہ آپ کاارشاد گرامی ہے:
ہماراکوئی وارث نہیں ہماراترکہ صدقہ ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7305۔
)

ان متروکات سے رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور جو بچ رہتا اسے مصالح عامہ میں صرف کردیاجاتا۔

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبے سے فارغ ہوکر اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی، اس طرح حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت پر تمام صحابہ کرام ؓ کااجماع ہوگیا۔
(صحیح مسلم، فضائل الجھاد، حدیث: 4581(1759)
اب جو ان کی خلافت کو صحیح خیال نہ کرے وہ تمام صحابہ کرام اور ان کے اجماعی فیصلے کا مخالف ہے۔
اور درج ذیل آیت کی وعید شدید میں داخل ہے:
جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے،ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر وہ جانا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بُرا مقام ہے۔
(النساء: 115: 4۔
)

اس روایت کی بنا پر روافض نے حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق بڑے غیض وغضب کا اظہار کیا ہے ہم کسی مناسب موقع پر اس کا جواب دیں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4240