مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الطهارة -- طہارت اور پاکیزگی کے احکام و مسائل

قبر کا عذاب برحق ہے
حدیث نمبر: 119
اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، نَا مَنْصُوْرٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِیْطَانِ مَکَّةَ اَوِ الْمَدِیْنَةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ اِنْسَانَیْنِ یُعَذِّبَانِ فِیْ قَبْرَیْهِمَا فَقَالَ: اِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیْرٍ: کَانَ اَحَدُهُمَا یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ، وَالْاٰخَرُ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهٖ، ثُمَّ اَخَذَ جَرِیْدَةً فَکَسَرَهَا کَسْرَتَیْنِ، فَجَعَلَ عَلٰی کُلِّ قَبْرٍ مِّنْهُمَا کَسْرَةً، فَقِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّهٗ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا، اَوْ اِلَی اَنْ یَّیْبَسَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے کسی باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی کہ انہیں قبروں میں ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا: ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ شاخ لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک ایک حصہ رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! آپ نے یہ کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے جب تک یہ خشک نہ ہوں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کی جائے۔

تخریج الحدیث: «السابق»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 119  
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے کسی باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی کہ انہیں قبروں میں ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا: ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک ایک حصہ رکھ دیا، آپ سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے یہ کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے جب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:119]
فوائد:
(1) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا قبر کا عذاب برحق ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ ((اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ)) الخ
عذاب جس وجہ سے ہو رہا تھا فرمایا: وہ بڑے گناہ نہیں تھے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ چھوٹے گناہ ہیں مطلب یہ کہ ان کے نزدیک یہ گناہ بڑے نہیں تھے وہ ان کو معمولی سمجھتے تھے یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ معمولی سی بھی احتیاط کرتے تو ان دونوں کاموں سے بچ سکتے تھے لیکن انہوں نے ان پر پرہیز نہ کیا۔ چغل خور کے متعلق ہے کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
(2).... پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ سنن ابی داؤد کے الفاظ ہیں: ((لَا یَسْتَنْزِهُ مِنَ الْبَوْلِ)) پیشاب سے نہ بچتا تھا۔ یہاں بھی یہی معنی مراد ہے۔ (ابوداود، رقم: 20)
معلوم ہوا پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا چاہیے اور پردہ کرکے بیٹھنا چاہیے۔ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا اور بے پردہ بیٹھ کر پیشاب کرنا عذاب قبر کا باعث ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 119