مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصلوٰة -- نماز کے احکام و مسائل

نماز میں ضرورت کے تحت چند قدم آگے پیچھے ہونا جائز ہے
حدیث نمبر: 136
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَا: نا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَقَالَ بَدَلَ يَفْتِكَ كَلِمَةً نَحْوَهَا.
ایک اور سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مانند مروی ہے۔ اور «يفتك» کی جگہ اسی طرح کا کلمہ ذکر کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 136  
ایک اور سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مانند مروی ہے۔ اور ((یَفْتِک)) کی جگہ اسی طرح کا کلمہ ذکر کیا۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:136]
فوائد:
(1).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن کو دھکا دینا جائز ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نماز کی حالت میں سانپ بچھو کو مارنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں تکلیف دینے والے جانوروں یعنی سانپ اور بچھو کو مار دیا کرو۔ (صحیح ابوداود، رقم: 814۔ سنن ابن ماجة، رقم: 1245)
اسی طرح ضرورت کے تحت چند قدم آگے اور پیچھے ہونا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے، دروازہ بند ہوتا، پس میں آکر دروازہ کھلواتی۔ (یعنی کھٹکھٹاتی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر دروازہ کھولتے، پھر نماز کی طرف لوٹ جاتے۔ (صحیح ابوداود، رقم: 815۔ سنن ترمذي، رقم: 601)
ہر انسان کے ساتھ شیطان رہتا ہے، لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم شیطانی حملوں سے مکمل محفوظ تھے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن (شیطان) کو ساتھی بنا کر مقرر کر رکھا ہے لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی، مگر میرے رب نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی ہے اور اسے میرے تابع کر دیاہے۔ اس لیے وہ مجھے خیر و بھلائی کے علاوہ کوئی اور حکم نہیں دیتا۔ (مسلم، کتاب صفات المنافقین، رقم: 2914)
لیکن اس کے باوجود شیطان اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا رہتا تھا اور وہ ناکام ہو کر واپس لوٹتا تھا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی دعا یہ ہے: ﴿وَهَبْ لِیْ مُلْکًا لاَّ یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ﴾ (صٓ: 35).... (اے اللہ!) مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے علاوہ کسی (شخص) کے لائق نہ ہو۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو چھوڑ دیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کو ماتحت بنانا جائز ہے یا کہ نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: انسان کے لیے جن کی تابعداری کی چند صورتیں ہیں، اگر انسان جن کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام یعنی اللہ کی عبادت اور رسول کی اطاعت کا حکم دیتا ہو اور انسانوں کو بھی اس کی تاکید کرتا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا افضل ترین ولی ہے اور اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ونائب ہے۔
اگر کوئی شخص جن کو ایسی چیزوں میں استعمال کرے جو اس کے لیے شرعی طور پر جائز ہوں مثلاً فرائض کی ادائیگی کا حکم دے، حرام چیزوں سے روکے اور اپنی جائز خدمت لے تو اس کا مقام بادشاہوں کا مقام ہوگا۔ جو لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔لیکن اگر کوئی جن کو ایسی چیزوں میں استعمال کرے جو اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں ممنوع ہوں مثلاً شرک میں استعمال کرے یا کسی کو بے گناہ قتل یا کسی پر ظلم کرنے میں گناہ اور ظلم کے معاملے میں مدد لینے کے کام ہیں، اگر وہ کفر کے معاملے میں جنوں سے مدد لیتا ہے تو کافر ہے۔ نافرمانی کے کام میں مدد لیتا ہے تو نافرمان، فاسق اور گنہگار ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: 11؍ 307)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 136