صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
40. بَابُ اسْتِعْمَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ خَيْبَرَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیبر والوں پر تحصیل دار مقرر فرمانا۔
حدیث نمبر: 4245
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا"، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ:" لَا تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا"،
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالمجید بن سہیل نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے خراب) دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ (اگر اچھی کھجور لانی ہو تو) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 513  
´ایک ہی جنس میں کم یا زیادہ لینا سود ہے`
«. . . 394- مالك عن عبد المجيد بن سهيل عن ابن المسيب عن أبى سعيد الخدري وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكل تمر خيبر هكذا؟ فقال: لا والله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر (کے علاقے) پر عامل یعنی امیر بنایا تو وہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم دو صاع کھجوریں دے کر اس قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین ساع دے کر دو ساع لیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عام کھجوروں کو درہموں (رقم) کے بدلے میں بیچ دو پھر رقم سے اعلی قسم کی کھجوریں خرید لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 513]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2201، 2202، ومسلم 95/1592، من حديث مالك به * وفي حديث يحيى بن يحيى: بِالدَّرَاهِمِ]

تفقه:
➊ اگر جنس ایک ہی ہو تو تجارت میں ایک جنس دے کر اس کے بدلے میں وہی جنس کم یا زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 394   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4245  
4245. حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ کھجوریں لایا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! واللہ ایسی نہیں ہیں۔ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجوریں دوسری دو یا تین صاع کے عوض خرید لیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو بلکہ گھٹیا کھجوریں درہموں کے بدلے فروخت کر کے ان درہموں سے عمدہ کھجوریں خرید لیا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4245]
حدیث حاشیہ:

خیبر کا علاقہ بڑازرخیزاور وہاں کی زمین زرعی اور باغبانی تھی۔
فتح کے بعد یہ علاقہ یہودیوں کو بٹائی پر دے دیاگیا۔
وہاں سے پیدا وار کا حصہ وصول کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو تعینات کیا، انھوں نے وہاں سے وصولی ایسے طریقے سے کی جس سے سواری کارو بار کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔
وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے وہاں کی کھجوریں بطور تحفہ لائے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں مذکورہ بالا ہدایت فرمائی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرام سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اسے حیلے کی تعلیم دی۔
حرام سے بچنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرنا مستحب بلکہ واجب ہوتا ہے3۔
حضرت ایوب ؑ کے واقعے میں حیلے کی نظیر خود قرآن نے بیان کی ہے۔
ہاں اگر کسی واجب سے گریز کے لیے کوئی حیلہ کیا جائے تو ایسا کرنانا جائز اور حرام ہے جیسا کہ چھ ماہ تک زیورات بیوی کے نام اور چھ ماہ تک کے لیے شوہر کے نام کر دیے جائیں تاکہ کسی ایک کی ملکیت میں ان پر سال نہ گزرے اور نہ ان پر زکوۃ واجب ہو۔
ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
قرآن کریم نے اس قسم کے حیلوں کی مذمت کی ہے جیسا کہ سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑنے والوں کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4245