مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصلوٰة -- نماز کے احکام و مسائل

نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی فضیلت
حدیث نمبر: 167
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، نا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:" قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، نِصْفُهُ لَهُ وَنِصْفُهُ لِي، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ [الفاتحة: 2]، قَالَ الرَّبُّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، فَإِذَا قَالَ: ﴿الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ [الفاتحة: 1]، قَالَ الرَّبُّ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، فَإِذَا قَالَ: ﴿مَالِكَ يَوْمِ الدَّينِ﴾، قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، فَإِذَا قَالَ: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [الفاتحة: 5]، قَالَ: هَذِهِ لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ [الفاتحة: 6]، قَالَ: هَذِهِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ"، هَكَذَا قَالَ الْفَضْلُ أَوْ نَحْوُهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جس کا اس نے سوال کیا ہے، اس کا نصف اس کے لیے ہے اور نصف میرے لیے ہے، جب بندہ کہتا ہے: «الحمد لله رب العالمين» رب تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد بیان کی، جب وہ کہتا ہے: «الرحمن الرحيم» رب فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثناء بیان کی، جب وہ کہتا ہے: «مالك يوم الدين» رب فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی، جب وہ کہتا ہے: «اياك نعبد واياك نستعين» وہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جس کا اس نے سوال کیا ہے۔ جب وہ کہتا ہے: «اهدنا الصراط المستقيم» تو وہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جس کا اس نے سوال کیا ہے۔ الفضل نے اسی طرح بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة الخ، رقم: 395. سنن ابوداود، رقم: 921. سنن ترمذي، رقم: 2953. سنن نسائي، رقم: 909. سنن ابن ماجه، رقم: 3784.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 167  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جس کا اس نے سوال کیا ہے، اس کا نصف اس کے لیے ہے اور نصف میرے لیے ہے، جب بندہ کہتا ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾ رب تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد بیان کی، جب وہ کہتا ہے: ﴿اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ﴾ رب فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثناء بیان کی، جب وہ کہتا ہے: ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدَّینِ﴾ رب فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی، جب وہ کہتا ہے: ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:167]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے سورۂ فاتحہ کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے کہ جو آدمی نماز میں اس سورت کی تلاوت کرتا ہے، اللہ ذوالجلال اس خوش نصیب پر مہربان اور راضی ہوتا ہے کہ اس کے ہر جملے کا جواب اللہ ذوالجلال دیتا ہے۔
مذکورہ حدیث قدسی کے ابتدائی الفاظ میں اللہ ذوالجلال نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نماز کو آدھا آدھا تقسیم کر لیا ہے۔ حالانکہ رکوع، سجدہ، جلسہ استراحت، قومہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر لیا۔ اور اسی طرح تکبیر تحریمہ، ثنا، تسبیحات، قومہ کی دعائیں وغیرہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ میں جواب دیتا ہوں صرف سورۂ فاتحہ کے متعلق ہی فرمایا کہ میں جواب دیتا ہوں۔ اسی لیے بعض مفسرین نے سورۂ فاتحہ کا نام ’سورۂ المناجات‘ رکھا ہے۔
((سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاتِ لِاَنَّ الْعَبْدَیُنَا جِیْ فِیْهَا رَبَّهٗ۔)) (الاتقان فی علوم القران: 1؍ 53)
معلوم ہوا ہر نمازی کو سورۂ فاتحہ ہر طرح کی نمازوں میں پڑھنا از حد ضروری ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 167