مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصلوٰة -- نماز کے احکام و مسائل

سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 193
اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: اُمِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّسْجُدَ عَلٰی سَبْعَةِ اَعْضَاءٍ، وَلَا یَکُفَّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا۔ قَالَ: وَقَالَ اِبْرَاهِیْمُ بْنُ مَیْسَرَةَ: سَأَلْتُ طَاؤُوْسًا عَنِ السُّجُوْدِ عَلَی الْاَنْفِ، فَقَالَ: هُوَ خَیْرٌ۔ قَالَ اِسْحَاقُ: اَیْ اَلْجَبْهَةُ وَالْاَنْفُ شَیْئٌ وَاحِدٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ سات اعضاء پر سجدہ کیا جائے، بال اور کپڑے نہ سمیٹے جائیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا: میں نے طاؤس رحمہ اللہ سے ناک پر سجدہ کرنے کے متعلق پوچھا:، تو انہوں نے فرمایا: وہ بہتر ہے، اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا: پیشانی اور ناک ایک ہی چیز ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب الصلاة، باب السجود، رقم: 884. قال الالباني: صحيح.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 193  
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ سات اعضاء پر سجدہ کیا جائے، بال اور کپڑے نہ سمیٹے جائیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا: میں نے طاؤس رحمہ اللہ سے ناک پر سجدہ کرنے کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: وہ بہتر ہے، اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا: پیشانی اور ناک ایک ہی چیز ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:193]
فوائد:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا سات اعضاء پر سجدہ کرنا چاہیے۔ سات اعضاء کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں۔ سات اعضاء کون کون سے ہیں۔ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔ (بخاري، رقم: 812)
یہ بھی معلوم ہوا کہ پیشانی اور ناک ایک ہی عضو ہیں۔ امام احمد، امام مالک، امام شافعی، امام محمد، قاضی ابویوسفs کا بھی یہی موقف ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ صرف سر یا ناک پر ہی سجدہ کرلیا جائے تو کافی ہے۔ (کتاب الام للشافعی: 1؍ 221۔ الحاوی: 2؍ 126)
معلوم ہوا نماز میں بالوں کو سمیٹنا جائز نہیں ہے۔ سمیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ جوڑا بنا لینا جس طرح عورتیں بناتی ہیں۔ شارحین لکھتے ہیں: اس میں حکمت یہ ہے کہ بالوں کو سمیٹا نہ جائے تاکہ وہ بھی سر کے ساتھ سجدہ کریں۔ سنن ابی داؤد میں ہے سعید بن ابی سعید مقبری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیّدنا ابورافع (مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا وہ سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے اپنی گدی میں اپنے بالوں کی چوٹی دھنسا رکھی تھی۔ پس ابو رافع نے ان کے بال کھول دیے۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے غصے سے ان کی طرف دیکھا تو ابورافع نے کہا: اپنی نماز پڑھیے اور ناراض مت ہوں۔ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جوڑے کا یہ مقام شیطان کی بیٹھک ہے۔ (سنن ابي داود، کتاب الصلاة، رقم: 646)
کپڑے سمیٹنے، یعنی نیچے جھکتے وقت کپڑا اکٹھا کرلینا تاکہ مٹی نہ لگ جائے، آج کل صورت حال یہ ہوتی ہے کہ مٹی کا معاملہ تو نہیں کاٹن وغیرہ ہوتی ہے۔ سجدے میں جاتے وقت کپڑا سمیٹ لیتے ہیں کہ استری نہ ٹوٹے یہ نماز کے خشوع وخضوع کے خلاف ہے۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 193