مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجنائز -- جنازے کے احکام و مسائل

مردے کا تدفین کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سننا
حدیث نمبر: 253
أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا سُفْيَانُ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُهُ قَالَ ((إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک وہ (مردہ) ان کی جوتیوں کی چاپ، حرکت سنتا ہے جب وہ اس سے مڑ کر جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الجنائز، باب ماجاء فى عذاب القبر. مسلم، كتاب الجنة، باب عرض مقعد الميت الخ، رقم: 2870. سنن ابوداود، رقم: 3231. سنن نسائي، رقم: 2049.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 253  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک وہ (مردہ) ان کی جوتیوں کی چاپ، حرکت سنتا ہے جب وہ اس سے مڑ کر جاتے ہیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:253]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جب مردے کو دفن کر دیا جاتا ہے، لوگ واپس پلٹتے ہیں تو مردہ واپس پلٹنے والوں کے جوتوں کی آوازیں سنتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب منکر نکیر آتے ہیں۔ (صحیح بخاري، رقم: 1338)
کیونکہ فرشتوں کے آنے سے قبل ان کی روح علیین یا مقام سجین سے لوٹا کر اسے ہوش میں لایا جاتا ہے۔ تاکہ وہ سوالوں کے جواب دے سکے۔ لیکن اس حدیث سے سماع موتیٰ کے اثبات پر استدلال کرنا درست نہیں، یہ وقتی سماع ابتدائے دفن کے ساتھ خاص ہے جو عدم سماع پر دال ہے۔ ہر وقت ہر زندہ آدمی کی پکار وآواز کا سننا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی صرف چند منٹوں کی بات ہے، اس کے بعد ورثاء جب آتے ہیں، روتے ہیں تو ان رونے دھونے والوں کی باتوں کو سننے سنانے کا ذکر نہیں ہے۔ اور جوتوں کی آواز سنانے کا مقصد احساس دلانا ہے کہ یہ تیرے رشتہ دار، دوست و احباب جو تجھ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اور پھر عالم بزرخ اور عالم دنیا کی زندگیاں مختلف ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازی میت کو قبر میں عصر کا تنگ وقت سورج کے غروب ہونا دکھایا جاتا ہے۔ حالانکہ بعض دفعہ مُردے صبح یا شام کو، عشاء، آدھی رات کے وقت دفن کرتے ہیں۔ معلوم ہوا وہ دنیا کا سورج نہیں ہو سکتا۔ بعض محدثین نے یہ جواب دیا ہے کہ یُسْمَعُ مضارع مجہول کا صیغہ ہے اور خَفْقُ نِعَالِهِمْ اس کا نائب فاعل ہے۔
مطلب ہوا کہ جب لوگ میت کو قبر میں دفن کر کے واپس گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ قبر سے ابھی صرف اتنے فاصلے پر پہنچتے ہیں کہ قبر کے پاس ان کی جوتیوں کی آواز جا سکتی ہے کہ منکر نکیر سوال وجواب کے لیے فوراً آجاتے ہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 253