صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
44. بَابُ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ:
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 4255
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، سَمِعَ ابْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ:" لَمَّا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَتَرْنَاهُ مِنْ غِلْمَانِ الْمُشْرِكِينَ، وَمِنْهُمْ أَنْ يُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ‘ انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو ہم آپ پر آڑ کئے ہوئے مشرکین کے لڑکوں اور مشرکین سے آپ کی حفاظت کرتے رہتے تھے تاکہ وہ آپ کو کوئی ایذا نہ دے سکیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2990  
´عمرہ کا بیان۔`
عبداللہ بن ابی او فی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے، آپ نے طواف کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، آپ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور ہم مکہ والوں سے آپ کو آڑ میں کیے رہتے تھے کہ وہ آپ کو کوئی اذیت نہ پہنچا دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2990]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ذوالقعدہ 6ھ میں طے پانے والے صلح کے معاہدے (صلح حدیبیہ)
میں یہ طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں کرینگے تاہم اگلے سال وہ عمرہ کرنے کے لیے آ سکیں گے۔
اس شرط کے مطابق ذوالقعدہ 7ھ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ ادا فرمایا۔
اس سفر میں دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
اس عمرے کو عمرۃالقضاء بھی کہتے ہیں۔ (فتح الباري: 7/ 627)

(2)
  اس موقع پر مشرکین اپنے گھروں سے نکل کر جبل قعیقعان پر جمع ہوگئے تھے تاہم خطرہ تھا کہ کوئی مشرک دھوکے سے رسول اللہ ﷺ کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔

(3)
ظاہری اسباب اختیار کرنا اللہ پر توکل کے منافی نہیں۔

(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم ﷺ سے اس قدر محبت رکھتے تھےکہ آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے پر تیار رہتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2990   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1902  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لیے ہوئے تھے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1902]
1902. اردو حاشیہ: یہ سن سات ہجری عمرہ قضا کا واقعہ ہے۔ اور آپ اس بار کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1902   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4255  
4255. حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو ہم نے آپ کو مشرکین اور ان کے لڑکوں سے پردے میں رکھا تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت نہ پہنچا سکیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4255]
حدیث حاشیہ:
صلح حدیبیہ کے بعد یہ عمرہ دوسرے سال کیا گیا تھا کفار مکہ کے قلوب اسلام اور پیغمبر اسلام کی طرف سے صاف نہیں تھے مسلمانوں کو خطرات برابر لاحق تھے۔
خاص طور پر حضور ﷺ کی حفاظت مسلمانوں کے لیے ضروری تھی۔
روایت میں اسی طرف اشارہ ہے۔
یہ حدیث غزوئہ حدیبیہ میں بھی گزر چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4255   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4255  
4255. حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو ہم نے آپ کو مشرکین اور ان کے لڑکوں سے پردے میں رکھا تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت نہ پہنچا سکیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4255]
حدیث حاشیہ:

فتوحات ملنے کی وجہ سے اگرچہ کفر اور اہل کفر کی کمر ٹوٹ چکی تھی تاہم کفار مکہ کے دل اسلام اور پیغمبر ﷺ کے متعلق صاف نہیں تھے۔
مسلمانوں کو ان سے خطرات لاحق رہتے تھے ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت انتہائی ضروری تھی۔
آپ نے جب صلح حدیبیہ کے دوسرے سال عمرہ کیا تو مسلمانوں نے اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کی مکمل خفاظت کی۔

اس حدیث میں آپ کے متعلق سیکورٹی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ایک روایت میں ہے کہ ہمیں مشرکین کی طرف سے خطرہ تھا کہ کوئی آپ کو پتھر ماردے یا کوئی اور تکلیف پہنچائے اس لیے ہم نے آپ کو حصار میں رکھا اور لوگوں سے چھپایا۔
(صحیح البخاری العمرة، حدیث: 1791۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4255