مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الزكوٰة -- زکوٰۃ کے احکام و مسائل

اصل مالداری نفس کی مالداری ہے
حدیث نمبر: 284
أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَيْسَ الْغَنَاءُ عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغَنَاءَ غِنَى النَّفْسِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کثرت مال و متاع تونگری نہیں، لیکن دل کی تونگری اصل تونگری ہے۔

تخریج الحدیث: «السابق»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 284  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کثرت مال و متاع تونگری نہیں، لیکن دل کی تونگری اصل تونگری ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:284]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا زیادہ مال ہونا مالداری نہیں ہے، اصل مالداری نفس کی مالداری ہے بہت سے لوگ زیادہ پیسے والے ہوتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ مال ہی کے طالب رہتے ہیں اور کمانے کی دھن میں رہتے ہیں کھانے پینے کی بھی انہیں فرصت نہیں ہوتی، اللہ کی راہ میں تو دیتے ہی نہیں بلکہ اپنی جانوں پر بھی خرچ نہیں کرتے۔ یہ مالداری نہیں اصل مالداری یہ ہے کہ دل غنی ہو، تھوڑا ہو مگر دل مطمئن ہو، اسی میں سے اپنے اوپر اپنے اہل وعیال پر مہمانوں پر دیگر بندگان خدا پر خرچ کرے۔
ایسا شخص حقیقت میں مالدار ہے اگر کچھ بھی اس کے پاس نہ ہو تب بھی وہ صبر وقناعت کے ساتھ اللہ ذوالجلال کے ذکر میں لگا رہتا ہے دوسروں کی طرف اس کی نیت نہیں جاتی اور نہ لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ ایسے شخص کا دل غنی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اسلام قبول کر لیا اور ضرورت کے مطابق روزی دیا گیا اور اللہ نے اس کو جو کچھ دیا اس پر اس کو قناعت کی توفیق سے نواز دیا۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، رقم: 1054)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 284