صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
44. بَابُ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ:
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 4256
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ وَفْدٌ وَهَنَهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، وَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ، وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَزَادَ ابْنُ سَلَمَةَ،عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَامِهِ الَّذِي اسْتَأْمَنَ , قَالَ:" ارْمُلُوا لِيَرَى الْمُشْرِكُونَ قُوَّتَهُمْ، وَالْمُشْرِكُونَ مِنْ قِبَلِ قُعَيْقِعَانَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ (عمرہ کے لیے مکہ) تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے یہاں وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر چلا جائے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان حسب معمول چلیں۔ تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم آپ نے اس لیے نہیں دیا کہ کہیں یہ (امت پر) دشوار نہ ہو جائے۔ اور حماد بن سلمہ نے ایوب سے اس حدیث کو روایت کر کے یہ اضافہ کیا ہے۔ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال عمرہ کرنے آئے جس میں مشرکین نے آپ کو امن دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین تمہاری قوت کو دیکھیں۔ مشرکین جبل قعیقعان کی طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 613  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان چار چکر عام معمول کے مطابق چل کر لگائیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 613]
613 لغوی تشریح:
«‏‏‏‏اَمَرهمْ» سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ 7 ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم فرمایا تھا۔
«ان يرملوا» میم پر ضمہ ہے۔ دوڑتے ہوئے۔
«اشواط» «شوط» کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہیں چکر لگانا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 613   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1886  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1886]
1886. اردو حاشیہ: کفر وکفار کو زیر رکھنے اور ان پرمسلمانوں کارعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے مختلف مناسب مواقع پراپنے شباب وقوت کا اظہار ومظاہرہ کرنا شرعا مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1886   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4256  
4256. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکروں میں رمل کریں، نیز رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلیں۔ آپ نے تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ مبادا امت پر دشوار ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4256]
حدیث حاشیہ:
قعیقعان ایک پہاڑ ہے وہاں سے شامی اور عراقی دونوں رکن دکھائی پڑتے ہیں رکن یمانی اور حجر اسود نظر نہیں آتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4256   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4256  
4256. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکروں میں رمل کریں، نیز رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلیں۔ آپ نے تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ مبادا امت پر دشوار ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4256]
حدیث حاشیہ:

کندھے ہلا کر آخر کر چلنے کو رمل کہتے ہیں۔

اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص مقصد کے پیش نظرایسا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایسا کرنا اب بھی مسنون ہے۔
واضح رہے کہ جب بیت اللہ کی دیواریں پرانی اور کمزور ہو گئیں تو قریش نے پانچویں مرتبہ اس کی تعمیر شروع کی۔
انھوں نے عہد کیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر پر حرام کا پیسہ نہیں لگائیں گے، اس لیے چندہ کم پڑ گیا تو انھوں نے بیت اللہ کا ایک حصہ اس تعمیر سے الگ کردیا اسے حطیم کہا جاتا ہے، اس لیے شمال کی جانب بیت اللہ کے دونوں کنارے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیاد پر نہیں ہیں اور جانب جبل قعیقعان پر کھڑے تھے جب مسلمان رکن یمانی اور حجر اسود کی طرف ہوتے تو مشرکین کو نظر نہیں آتے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صرف حطیم کی جانب آتے ہوئے رمل کا حکم دیا اور وہ بھی پہلے تین چکروں میں باقی پھیروں میں مشقت کی وجہ سے عام رفتار کے ساتھ طواف کرنے کے متعلق فرمایا صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔
مشرکین نے کہا:
ہمارا خیال تھا کہ مسلمان مدینے جا کر کمزور ہو چکے ہیں لیکن یہ تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو چکے ہیں۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 9530۔
(2166)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4256